برطانیہ نےاثاثے منجمد کرنے اور ویزا پر پابندیوں جیسی تعزیرات کے تازہ ترین سلسلے میں، پیر کو ایرانی پاسداران انقلاب یا آئی آر جی سی کے مزید اعلیٰ عہدیداروں پر پابندیاں عائد کردی ہیں ۔ ان میں فنانسرز اور کمانڈرز شامل ہیں۔
برطانیہ نے کہا ہے کہ وہ آئی آر جی سی کے لیے سرمایہ فراہم کرنے والی ایک فاؤنڈیشن کے پانچ ڈائریکٹرز اور ریاستی سیکیورٹی سروس کے دو صوبائی کمانڈروں پر بھی پابندیاں عائد کر رہی ہے۔
SEE ALSO: برطانیہ نے خلیج عمان میں ایرانی ہتھیاروں کی ایک بڑی کھیپ پکڑ لیحالیہ مہینوں میں ایرانی حکومت کی جانب سے ایک 22 سالہ کرد نژاد ایرانی خاتون کی پولیس کی حراست میں کے خلاف ملک گیر مظاہروں کو کچلنے کے لیے تشدد،بڑے پیمانے پر پکڑدھکڑ، پھانسی سمیت مختلف معیادوں کی سزائیں دینے، اظہار رائے کی آزادی اور انسانی حقوق سے انکار کے درعمل میں ایرانی عہدے داروں اور اداروں پر امریکہ، یورپی یونین اور برطانیہ نے مختلف نوعیت کی پابندیاں عائد کی ہیں۔
برطانیہ کی جانب سے اعلان کردہ تعزیرات اس سلسلے کی تازہ ترین پابندیاں ہیں۔
برطانیہ کے وزیرخارجہ جیمز کلیورلی نے کہا، آج ہم آئی آر جی سی کے اندر ان سینئر لیڈروں کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں جو حکومت کے وحشیانہ جبر کے لیے رقوم فراہم کرنے کے ذمہ دار ہیں۔
SEE ALSO: ایران میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری ہیں، یورپی یونین دباؤ برقرار رکھے: عبادیان کا کہنا تھا کہ ہم دنیا بھر میں اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کرایران میں بنیادی تبدیلی کا مطالبہ کرنے والے ایرانی عوام کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑے رہیں گے۔
برطانیہ نے سال کے آغاز سے ہی کئی ایرانی شخصیات، جن میں آئی آر جی سی کے اہم عہدے دار اور بڑے کمانڈر بھی شامل ہیں، اور تنظیموں کے اثاثے منجمد کیے ہیں اور ان پر برطانیہ کے سفرپر پابندیاں عائد کی ہیں۔ ان میں پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ پابندیوں کا ہدف بننے والوں میں تہران کے پراسیکیوٹر جنرل بھی شامل ہیں۔
اس سے قبل جنوری میں برطانیہ نے ایرانی عہدے داروں پر پابندیوں کا نفاذ اس وقت کیا تھا جب ایران نے ایک ایرانی نژاد برطانوی شہری علی رضا اکبری کو بر طانیہ کے لیے جاسوسی کرنے کے الزام میں پھانسی دینے کا اعلان کیا تھا جس سے مغرب میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی تھی۔
SEE ALSO: ایران: خاتون سرگرم کارکن رہائی کے چند گھنٹوں بعد دوبارہ گرفتارگزشتہ سال 16 ستمبر کو ایرانی پولیس نے 22 سالہ مہسا امینی کو اس وقت حراست میں لیا تھا جب وہ اپنے بھائی کے ساتھ تہران جا رہی تھی۔ پولیس کا الزام تھا تھا مہسا نے خواتین کے لیے حکومت کے مقرر کردہ ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی کی ہے۔
ایران میں خواتین کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنا سر ڈھانپ کر رکھیں۔ ان ضوابط پر عمل درآمد کے لیے ایک خصوصی فورس تشکیل دی گئی ہے جسے ’اخلاقی پولیس‘ کہا جاتا ہے۔
مہسا کی ہلاکت کے نتیجے میں ایران بھر میں احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے ۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق اس دوران حکومتی تشدد سے 500 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔ 20 ہزار سے زیادہ مظاہرین کو گرفتار کیا گیا۔ ہزاروں افراد کو مختلف معیاد کی سزائیں سنائی گیئں۔ چار افراد کو پھانسی دی گئی۔ تنظیموں کے مطابق اس وقت بھی 100 سے زائد افراد ایسے ہیں جنہیں ان پر لگائے گئے الزامات پر انہیں موت کی سزا ہو سکتی ہے۔
(اس خبر کے لیے کچھ معلومات اے ایف پی سے حاصل کی گئیں ہیں)