پی ٹی آئی ممنوعہ فنڈنگ پر برطانوی اخبار کی رپورٹ: حکومت اور تحریکِ انصاف آمنے سامنے

فائل فوٹو

برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئئ) کے ممنوعہ فنڈنگ کیس کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ پی ٹی آئی کوبرطانیہ سے ممنوعہ فارن فنڈنگ کی گئی۔

پاکستان مسلم لیگ(ن) کے نائب صدر شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ہم نے الیکشن کمیشن کو بتایا ہے کہ ثبوت بڑے واضح ہیں اور پاکستان کے عوام کا حق ہے کہ انہیں پتا چلے کہ عمران خان کس سے پیسے لیتے رہے ہیں۔

انہوں نے برطانوی اخبار کاحوالہ دیتے ہوئے کہا کہ فنانشل ٹائمز نے اپنی خبر میں کہا کہ 'ابراج گروپ' کے عارف نقوی نے میچز کروائے، لوگوں سے رقم لے کر کہا کہ یہ پیسے فلاحی کاموں میں خرچ ہوں گے۔ ان پیسوں سے 55 کروڑ کا فنڈ پی ٹی آئی کو دیا گیا ۔ ان کمپنیوں کے پیچھے کون تھے یہ وقت بتائے گا۔

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ یہ فنڈنگ دینے والے شخص عارف نقوی نے الیکشن کمیشن میں جمع کرائے گئے بیان حلفی میں فنڈنگ کو قانونی قرار دیا تھا۔ انہوں نے ایسا ہی بیانِ حلفی تحریک انصاف کو بھی جمع کروایا تھا، اگر کوئی غیرقانونی کام ہوا ہے تو یہ عارف نقوی اور برطانوی حکام کا آپس کا معاملہ ہے۔

پی ٹی آئی رہنما فرخ حبیب نے بھی ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس اس معاملے کو سننے کا اختیار ہی نہیں ہے۔

برطانوی اخبار کی رپورٹ میں ہے کیا؟

برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ برطانیہ میں فنڈز جمع کرنے کے لیے ٹی ٹوئنٹی میچز کروائے گئے۔ دیگرذرائع سے بھی حاصل کی جانے والی رقم پی ٹی آئی کو منتقل کی گئی۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کو رقم ابراج گروپ کے بانی عارف نقوی کی جانب سے منتقل کی گئی۔ عارف نقوی نے کیمن آئی لینڈز میں شامل کمپنی ووٹن کرکٹ لمیٹڈ کو پاکستان تحریکِ انصاف کے بینک رول کے لیے استعمال کیا۔

عارف نقوی نے کرکٹ میچز منعقد کرائے جن میں سب سے اہم میچ آکسفورڈ شائر میں عارف نقوی کی رہائش گاہ پرکھیلاگیا ۔ ویک اینڈ پردی گئی دعوت میں عمران خان سمیت سینکڑوں بینکرز، وکلا اور سرمایہ کاروں نےشرکت کی۔

برطانوی اخبار کے مطابق عارف نقوی 2012 سے2014 تک ووٹن ٹی ٹوئنٹی کے صدر رہے۔ ووٹن پیلس پرکھیلے جانے والے میچ کے لیےمہمانوں کو فلاحی مقاصد کے لیے دو سے ڈھائی ہزار پاؤنڈ کے درمیان ادائیگی کا کہا گیا۔

برطانیہ میں ہرسال موسم گرما میں اس قسم کے چیریٹی فنڈ ریزرمنعقد کیے جاتے ہیں تاہم غیرمعمولی بات یہ تھی کہ جمع کیے گئے فنڈز کا فائدہ پاکستان کی ایک سیاسی جماعت کو ہوا۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ رقم ووٹن کرکٹ لمیٹڈ کوفیس ادا کی گئی جودراصل کیمن آئی لینڈز میں رجسٹرڈکمپنی تھی جس کے مالک عارف نقوی تھے۔

ووٹن کرکٹ کوکئی کمپنیوں اور افراد نےلاکھوں ڈالرکےفنڈز دیے جب کہ متحدہ عرب امارات کے وزیر نےجو ابوظہبی کےشاہی خاندان کے فرد بھی ہیں 20لاکھ پاونڈز دیے۔فنانشل ٹائمز کی طرف سے ابراج کی ای میلز اور اندرونی دستاویزات کے جائزے میں کہا گیا ہے کہ ووٹن کرکٹ کو 14مارچ 2013 کو ابراج انویسٹمنٹ سے 13 لاکھ ڈالرموصول ہوئے۔

ووٹن کرکٹ کےاکاؤنٹ سے 13 لاکھ ڈالربراہ راست پی ٹی آئی کےاکاؤنٹ میں ڈالے گئے۔پاکستانی قوانین کے مطابق پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے لیے بیرون ملک سے فنڈنگ پر پابندی عائد ہے۔

دیگر تفصیلات کے مطابق اپریل 2013 میں ابوظہبی کے شیخ نہیان مبارک نے ووٹن کرکٹ کے اکاؤنٹ میں 20 لاکھ ڈالرمنتقل کیے۔ 20 لاکھ ڈالر آنےکے چھ دن بعد12 لاکھ ڈالر دو قسطوں میں پاکستان منتقل کردیے گئے۔

برطانوی اخبار کا کہناہےکہ کراچی میں طارق شفیع کے ذاتی اکاؤنٹ یا لاہور میں انصاف ٹرسٹ کے اکاؤنٹ میں رقم بھیجنےکی تجویز دی گئی۔ عارف نقوی نے متعلقہ فرد کو کہا کہ پی ٹی آئی کو 12 لاکھ ڈالر بھیجیں لیکن کسی کونہ بتائیں کہ فنڈزکہاں سے آرہے ہیں اورکون حصہ ڈال رہاہے۔

برطانوی اخبار کے مطابق شیخ نہیان نے تبصرے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا تاہم عمران خان نےتصدیق کی کہ طارق شفیع نے پی ٹی آئی کوچندہ دیا۔

فنانشل ٹائمز کا کہنا ہے کہ عارف نقوی کی ای میلز موجود ہیں جن میں انہوں نے 12 لاکھ ڈالر منتقل کرنے کا کہنا ہے۔ ابراج گروپ کے ایگزیگٹو افسر رفیق لاکھانی نے ای میل کی جس میں تحریر ہے کہ یہ پیسے پی ٹی آئی کے لیے ہیں۔

6 مئی 2013 کو ووٹن کرکٹ نے 12 لاکھ ڈالر طارق شفیع اور انصاف ٹرسٹ کو منتقل کیے۔ اس بارے میں یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ عمران خان نے تسلیم کیا ہے کہ طارق شفیع نے پیسے تحریک انصاف کو دیے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس بات کا جواب طارق شفیع کو دینا ہے کہ انہیں پیسے کس نے دیے۔ رپورٹ میں طارق شفیع نے اپنا مؤقف نہیں دیا۔

تحریک انصاف کا ردِعمل

تحریکِ انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز میں اپنی جماعت کو ملنے والی فنڈنگ کے حوالے سے شائع ہونے والی خبر پر موؐقف دیتے ہوئے کہا کہ عارف نقوی نے الیکشن کمیشن میں جمع کرائے گئے بیانِ حلقی میں فنڈنگ کو قانونی قرار دیا تھا۔

فواد چوہدری نے کہا کہ تینوں جماعتوں کی فنڈنگ کا فیصلہ اکٹھا آنا چاہیے ،فنڈنگ کے قانون کامقصد یہ ہے کہ ووٹر کو پتا ہو کہ سیاسی جماعت کی فنڈنگ کون کر رہا ہے تحریک انصاف نے 40ہزار سے زیادہ ڈونرز کی تفصیلات الیکشن کمیشن کو دی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اوورسیز پاکستانی تحریکِ انصاف کو فنڈنگ کرتے ہیں جس طرح اوورسیز پاکستانی پاکستان کو سپورٹ کرتے ہیں اسی طرح تحریک انصاف کو سپورٹ کرتے ہیں،اسی طرح پاکستانیوں کا حق ہے کہ ان کو معلوم ہو کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو کون فنڈ کرتا ہے ابھی تک یہ راز سامنے کیوں نہیں آ رہا؟

ٹوئٹر پر اپنے پیغامات میں ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی غیرقانونی کام ہوا ہے تو یہ عارف نقوی اور برطانوی حکام کا آپس کا معاملہ ہے۔

فواد چوہدری نے میڈیا میں اس کیس کی تشہیر پر کہا کہ پاکستانی میڈیا خصوصاً جیو کو کہتا ہوں کم از کم اپنے لوگوں کو اس لئے ولن بنا کر پیش نہ کریں کہ امریکہ نے کیس کردیا ہے، عارف نقوی کی ابراج چودہ بلین ڈالر کی کمپنی بن چکی تھی جب بھی کوئی مسلمان خصوصاً پاکستانی مسلمان کا اثر و نفوذ ایک حد سے اوپر جاتا ہے اسرائیلی لابی کو پسند نہیں آتا




اتحادی جماعتوں کا ردِعمل

دوسری جانب حکومتی اتحادی جماعتیں بھی الیکشن کمیشن پر دباؤ ڈال رہی ہیں کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کے ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ جلد سنائے۔

چیف الیکشن کمشنر سے ملاقات کے بعد اتحادی حکومت کے رہنماؤں نے الیکشن کمیشن کے باہر پریس کانفرنس سے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کے مشترکہ وفد نے چیف الیکشن کمشنر سے ملاقات کی، جس کا ایک نکتہ تھا کہ 8 سال سے فارن فنڈنگ کیس چل رہا ہے، لہذٰا اس پر فوری فیصلہ سنایا جائے۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اس کیس میں اکبر ایس بابر نے واضح ثبوت مہیا کیے جب کہ پی ٹی آئی نے اس معاملے کو روکنے کی کوشش کی ،الیکشن کمیشن پر بھی دباؤ ڈالا ۔ الیکشن کمیشن کو پی ٹی آئی نے ریکارڈ مہیا نہیں کیا، جن اکاؤنٹس کا ریکارڈ ملا وہ اسٹیٹ بینک سے ملا جب کہ پی ٹی آئی نے کہا کہ ان اکاؤنٹس کا پی ٹی آئی کو علم نہیں۔

ممنوعہ فنڈنگ کیس ہے کیا اور کب کیا ہوا؟

اس کیس میں پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھنے والوں میں سے ایک اکبر ایس بابر نے نومبر 2014 میں الیکشن کمیشن آف پاکستان میں درخواست کی کہ پی ٹی آئی کے اکاؤنٹس میں آنے والی کروڑوں روپے کی رقوم غیرقانونی طور پر ان اکاؤنٹس میں آئی ہیں جن کے بارے میں کچھ اطلاع نہیں ہے۔

اس معاملے پر پارٹی کے اندر اکبر ایس بابر پر شدید تنقید کی گئی اور ایک وقت آیا کہ ان کی بنیادی رکنیت بھی ختم کردی گئی، لیکن اکبر ایس بابر اپنے موقف سے نہ ہٹے اور اس بارے میں الیکشن کمیشن میں کیس چلاتے رہے۔

درخواست گزار کا الزام تھا کہ تحریکِ انصاف کو بیرونی ممالک سے بھاری رقوم فنڈنگ کی مد میں حاصل ہوئیں۔ لیکن الیکشن کمیشن کو جو ریکارڈ فراہم کیا گیا وہ اُس رقم سے مطابقت نہیں رکھتا۔ لہذٰا فنڈز میں خرد برد کی گئی۔

الیکشن کمیشن نے اگست 2017 میں غیر ملکی فنڈنگ کیس کی سماعت روکنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ریکارڈ جمع کرانے کے لیے سات ستمبر تک کی مہلت دی تھی۔ بعد ازاں، الیکشن کمیشن نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو اس حوالے سے حکم دیا۔ جس کے مطابق پاکستان تحریکِ انصاف نے مختلف کمرشل بینکوں میں موجود کل 26 اکاؤنٹس میں سے آٹھ کو ظاہر کیا اور ان کی تفصیل الیکشن کمیشن میں عمران خان کے دستخطوں سے جمع کرائی۔
جب کہ باقی 18 اکاؤنٹس کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہ بے نامی اکاؤنٹس تھے جن میں بیرون ملک سے آنے والی فنڈنگ جمع کی جاتی رہی۔ لیکن یہ فنڈنگ کہاں خرچ ہوئی، اس بارے میں کوئی تفصیل فراہم نہیں کی گئی۔ پی ٹی آئی مخالف جماعتیں انہی بے نامی اکاؤنٹس کی بنیاد پر تحریک انصاف کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف فارن فنڈنگ کے حوالے سے اکبر ایس بابر کی طرف سے عائد کردہ تمام الزامات کی تردید کرتی آئی ہے۔ پارٹی رہنماؤں کا مؤقف رہا ہے کہ سیاسی مخالفین کے کہنے پر پارٹی کو بدنام کرنے کے لیے یہ کیس بنایا گیا ہے۔