یوکرین کےصدر ولادیمیر زیلنسکی یورپی دورے کے سلسلے میں پیر کو برطانیہ میں تھے، کیونکہ کیف کے اس مضبوط اتحادی نے یوکرین کو مزید سینکڑوں میزائل اور حملہ کرنے والے ڈرون دینے کا وعدہ کیا ہے۔
زیلنسکی ہیلی کاپٹر کے ذریعے برطانوی رہنما کی سرکاری مضافاتی رہائش گاہ پر اترے، اور وزیر اعظم رشی سونک نے ان کا استقبال کیا۔ فروری 2022 میں روس کے یوکرین پر حملہ کرنے کے بعد زیلنسکی کا برطانیہ کا یہ دوسرا دورہ ہے۔
زیلنسکی نے اب تک کی حمایت کے لیے برطانیہ کا شکریہ ادا کیا، اور کہا کہ سونک کے ساتھ ان کی بات چیت میں "بہت اہم مسائل اور یوکرین کے لیے ہنگامی مدد جیسے موضوعات کا احاطہ کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ جنگ صرف یوکرین کے لیے نہیں بلکہ پورے یورپ کے لیے اہم ہے۔
SEE ALSO: جی سیون سفارت کاروں کا اجلاس: چین، شمالی کوریا، روسی جارحیت کی مذمتسونک نے زیلنسکی کو بتایا کہ "آپ کی قیادت، آپ کے ملک کی بہادری اور استقامت ہم سب کے لیے حوصلہ افزا اور متاثر کن ہے۔
زیلنسکی گزشتہ چند دنوں میں کئی ملکوں کا دورہ کر چکے ہیں۔ برطانیہ اس سلسلے کا چوتھا ملک ہے۔ یوکرین مزید فوجی امداد کی تلاش میں ہے تاکہ وہ ان علاقوں کو واپس لے سکے جن پر روس نے جنگ کے دوران قبضہ کیا ہے۔
اس سے قبل یوکرین کے صدر نے جرمنی اور اٹلی کے اپنے دوروں کے بعد جہاں انہوں نے ان ممالک کے رہنماؤں اور پوپ فرانسس سے ملاقات کی ہے، فرانسیسی صدر ایمانوئل میکروں سے ملاقات کے لیے اتوار کی شام پیرس کا غیر اعلانیہ دورہ کیا تھا۔
برطانیہ یوکرین کے بڑے فوجی اتحادیوں میں سے ایک بن گیا ہے، جو کیف کو مختصر فاصلے تک مار کرنے والے میزائل اور چیلنجر ٹینک بھیج رہا ہے اور اپنی سرزمین پر 15000 یوکرینی فوجیوں کو تربیت دے رہا ہے۔ پچھلے ہفتے برطانیہ نے اعلان کیا کہ اس نے یوکرین کو اسٹارم شیڈو کروز میزائل بھیجے ہیں، جو 250 کلومیٹر یا 150 میل سے زیادہ فاصلے تک مار کر سکتا ہے۔ یہ ہتھیاروں کی پہلی ایسی معلوم کھیپ ہے ، جو کیف طویل عرصے سے اپنے اتحادیوں سے حاصل کرنے کا خواہاں تھا۔
سونک کے دفتر نے کہا کہ پیر کو برطانیہ اس بات کی تصدیق کرے گا کہ وہ یوکرین کو سینکڑوں مزید فضائی دفاعی میزائلوں کے ساتھ ساتھ طویل فاصلے تک مار کرنے والے ایسے ڈرونز دے رہا ہے جن کی رینج دو سو کلومیٹر یا ایک سو بیس میل سے زیادہ ہے۔
سونک نے کہا کہ یہ جارحیت کی اس خوفناک جنگ کے خلاف، یوکرین کی مزاحمت کا ایک اہم لمحہ ہے ، جس کانہ انہوں نے انتخاب کیا اور نہ ہی اس کے لیےاکسایا۔انہیں بے لگام اور اندھا دھند حملوں کے خلاف دفاع کے لیے بین الاقوامی برادری کی مسلسل حمایت کی ضرورت ہے جو ایک سال سے زیادہ عرصے سے ان کی روزمرہ کی حقیقت بن گئی ہے۔
ڈاؤننگ اسٹریٹ نے کہا کہ ہمیں انہیں مایوس نہیں کرنا چاہیے۔سونک اس ہفتے کے آخر میں جاپان میں گروپ آف سیون کے رہنماؤں کے اجلاس میں مزید مدد فراہم کرنے کے لیے اتحادیوں پر زور دیں گے۔
جیسے ہی زیلنسکی نے یورپی دارالحکومتوں کا دورہ کیا، روس نے اختتام ہفتہ ڈرونز اور میزائلوں سے یوکرین میں حملے تیز کر دیے۔ سومی خطے کی فوجی انتظامیہ نے اپنے سرکاری ٹیلیگرام چینل پر ایک بیان میں کہاکہ اتوار کے روز، روس نے شمالی سرحدی علاقے سومی میں دو کمیونیٹیز پر گولہ باری کی۔ اس نے کہا کہ 109 دھماکے ریکارڈ کیے گئے۔
زیلنسکی اور میکروں نے اتوار کے روز فرانسیسی صدارتی ایلیسی پیلس میں تقریباً تین گھنٹے تک ملاقات کی۔ یہ ملاقات یوکرین کے رہنما کی پیرس آمد سے کچھ دیر قبل تک خفیہ رہی۔
میکروں کے دفتر نے کہا کہ فرانس درجنوں ہلکے ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں آنے والے ہفتوں میں یوکرین کو فراہم کرے گا، تاہم ان کی تعداد نہیں بتائی گئی۔ اس کے علاوہ مزید فضائی دفاعی نظام فراہم کرنے کا وعدہ بھی کیا لیکن اس کی بھی تفصیلات عام نہیں کی گئیں۔
میکروں کے دفتر نے کہا کہ مزید یوکرینی باشندوں کو بھی جنگ کے لیے تیار کیا جائے گا۔
فرانس نے جرمنی میں زیلنسکی کو لینے کے لیے ایک طیارہ روانہ کیا تھا، جہاں انہوں نے اتوار کی صبح چانسلر اولاف شولز سے ملاقات کی اور تبادلہ خیال کیا۔
حملے کے آغاز کے بعد سے یہ ان کا برلن کا پہلا دورہ تھا اور جرمن حکومت کی جانب سے یوکرین کے لیے 2.7 بلین یورو سے زیادہ مالیت کی فوجی امداد کے ایک نئے پیکج کا اعلان اس کے ایک دن بعد ہوا، اس امداد میں ٹینک، طیارہ شکن نظام اور گولہ بارود شامل ہیں۔
مغربی جرمنی کے شہر آچن میں، زیلنسکی نے باوقار بین الاقوامی شارلمین پرائز بھی وصول کیا، جو انہیں اور یوکرین کے لوگوں کو دیا گیا۔
ہفتہ کے روز انہوں نے روم میں پوپ فرانسس اور اطالوی وزیر اعظم جارجیا میلونی سے ملاقات کی۔
یورپی دورے پر، زیلنسکی نے کہا کہ یوکرین کا مقصد یوکرین کی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ سرحدوں کے اندر روس کے زیر قبضہ علاقوں کو آزاد کرانا ہے، روسی سرزمین پر حملہ نہیں کیا جائے گا۔
جن علاقوں پر اب بھی روس کا قبضہ ہے ان میں جزیرہ نما کرائمیا اور مشرقی یوکرین کے کچھ حصے شامل ہیں جہاں بیشتر روسی زبان بولنے والی آبادی ہے۔
(اس رپورٹ کے لیے مواد نیوز ایجنسی اے پی سے لیا گیا ہے)