|
ویب ڈیسک _ برطانیہ کے ایسٹ مڈلینڈز ایئرپورٹ تک ٹرین سروس فراہم کرنے والے ریلوے اسٹیشن کے قریب واقع 'رٹکلف آن شور' نامی کول پاور پلانٹ کے دیوہیکل کولنگ ٹاورز ٹریک سے کچھ ہی فاصلے پر ہیں۔ لیکن اس مہینے کے اختتام پر وسطی انگلینڈ میں واقع یہ سائٹ ہمیشہ کے لیے بند ہو رہی ہے۔ یہ آخری کول پاور پلانٹ ہے جسے اب برطانیہ میں بند کیا جا رہا ہے۔
جی سیون ممالک میں برطانیہ وہ پہلا ملک ہے جہاں کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر مکمل طور پر بند ہو رہے ہیں۔
دنیا کے مختلف ملکوں میں آلودگی پھیلانے کا سبب سمجھے جانے والے کول پاور پلانٹس کو بتدریج بند کیا جا رہا ہے۔
'رٹکلف آن شور' نامی یہ کول پاور پلانٹ تقریباً 60 برسوں سے ایسٹ مڈ لینڈز کے خطوں میں توانائی کی ضروریات پوری کرتا رہا ہے۔ اس نام سے یہاں ایک چھوٹا قصبہ بھی ہے جب کہ یہ ایم ون موٹروے پر ڈربی اور ناٹنگھم کو تقسیم کرنے کی نشانی بھی ہے۔
چوہتر سالہ ریٹائر سرکاری افسر ڈیوڈ رینلڈز کہتے ہیں کہ "یہ سب کچھ بہت عجیب لگ رہا ہے کیوں کہ یہ کافی عرصے سے یہاں موجود تھا۔"
رینلڈز نے اپنے بچپن میں یہ بجلی گھر بنتے دیکھا تھا جس نے 1967 میں کام شروع کیا تھا۔
کوئلے نے برطانیہ کی معیشت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں یہ صنعتی انقلاب کی بنیاد رہا ہے۔ اس نے نہ صرف برطانیہ کو دنیا میں ایک بڑی معاشی طاقت بنایا۔ لیکن لندن میں اسموگ کی وجہ بھی ان کوئلے کے کارخانوں کو قرار دیا جاتا رہا ہے۔
حتیٰ کے 80 کی دہائی میں کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر برطانیہ کی توانائی کی ضروریات کا 70 فی صد پورا کرتے تھے۔ تاہم 90 کی دہائی میں اس میں بتدریج کمی دیکھنے میں آئی۔
لیکن گزشتہ ایک دہائی کے دوران کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کی تعداد میں تیزی سے کمی آئی ہے۔ 2013 میں کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر برطانیہ میں توانائی کی ضروریات کا 38 فی صد پورا کرتے تھے۔ 2018 میں یہ کم ہو کر پانچ فی صد جب کہ گزشتہ برس یہ صرف ایک فی صد رہ گئے تھے۔
سن 2015 میں برطانوی حکومت نے یہ اعلان کیا تھا کہ 2025 تک کاربن اخراج کا باعث بننے والے تمام کول پاور پلانٹس بند کردیے جائیں گے۔
انرجی اینڈ کلائمیٹ انٹیلی جینس یونٹ تھنک ٹینک میں توانائی کے سربراہ جیس رالسٹن کہتے ہیں کہ 2030 تک کلین انرجی کا ہدف بہت بڑا تھا۔ لیکن اس سے یہ بڑا مضبوط پیغام گیا ہے کہ برطانیہ موسمیاتی تبدیلیوں کو بہت اہمیت دیتا ہے۔
برطانیہ کے نیشنل گرڈ الیکٹری سٹی آپریٹر (ای ایس او) کے مطابق برطانیہ میں بجلی کی ضروریات کا ایک تہائی قدرتی گیس، ایک چوتھائی ہوا جب کہ 13 فی صد بجلی نیوکلیئر پاور سے پیدا ہوتی ہے۔
رالسٹن کہتے ہیں کہ معاشی پالیسیوں اور ریگولیشنز کے باعث برطانیہ اتنی تیزی کے ساتھ کول پلانٹس ختم کرنے کے قابل ہوا۔
اُن کا کہنا تھا کہ اتنے بڑے پاور پلانٹس سے سلفر ڈائی آکسائیڈ، اور نائٹرس آکسائیڈز کا اخراج روکنے کے لیے ان پر سخت شرائط عائد کی گئیں۔ یہی وجہ تھی کہ کوئلے کا بجلی گھر لگانا سرمایہ کار کے لیے کوئی اچھا سودا نہیں رہا۔
لیبر پارٹی کی حکومت نے جولائی میں گرین انرجی پلان شروع کیا تھا جس میں آف شور ونڈ، ہائیڈل پاور اور نیوکلیئر پاور میں سرمایہ کاری کو فروغ دیا گیا جس کا مقصد برطانیہ کو کلین انرجی میں سپر پاور بنانا تھا۔
رواں ماہ 30 ستمبر کو 'رٹکلف آن شور' کی بندش برطانیہ میں 2050 تک کاربن فری ملک بننے کے اہداف کا حصہ ہے۔
جی سیون ملکوں میں شامل فرانس 2027، کینیڈا 2030، جرمنی 2038 میں یہ ہدف حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم جاپان اور امریکہ نے تاحال کوئی تاریخ نہیں دی۔
اس خبر کے لیے معلومات خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے لی گئی ہیں۔