یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل نے پیر کے روز کہا ہے کہ انہیں امید ہے کہ اس ہفتے ایک معاہدہ ہو جائے گا جسکے تحت روس اوڈیسا اور دوسرے مقامات پر یوکرینی بندرگاہوں کی بندش ختم کردے گا کیونکہ بہت سے ملکوں میں خوراک کی قلت کے سبب لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کا انحصار اس نوعیت کے معاہدے پر ہے۔
بیلجیئم کے شہر برسلز میں نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے بوریل نے کہا کہ روس کو یوکرین کو غلہ برآمد کرنے کی اجازت دینی چاہیے ورنہ دنیا یہ کہنےپر مجبور ہو جائے گی کہ روس انسانی زندگیوں کی پرواہ کیے بغیر خوراک کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔
بوریل نے کہا کہ یہ کوئی سفارتی کھیل نہیں ہے۔ بلکہ بہت سے انسانوں کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔
گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا تھا کہ روس اور یوکرین کے درمیان ترکی اور اقوام متحدہ کے ساتھ معاہد ے کے حق میں اتفاق رائے موجود ہے ،جس کے تحت لاکھوں ٹن اس یوکرینی غلے کی برآمد ہو سکے جو 24 فروری کے روسی حملے کے بعد سے گوداموں میں پڑا ہے۔
یورپی یونین کے وزرائے خارجہ برسلز میں ملاقات کر رہے ہیں جس میں یوکرین کے لیے مزید فوجی امداد سمیت مزید تعاون ، روس کے خلاف موجودہ پابندیوں کے نفاذ کو بہتر بنانے اور روس سے سونے کی خریداری پر پابندی کی تجویز پر غور کیا جا رہا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
بوریل نے کہا کہ روس یورپی یونین کے ممالک کے خلاف روسی گیس پر یورپ کے انحصار کا فائدہ اٹھا رہا ہے، لیکن یورپی یونین کے رہنما "کسی بھی ممکنہ صورت حال کا سامنا" کرنے کے لیے منصوبے تیار کر رہے ہیں اور یوکرین کی حمایت کرنا بند نہیں کریں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یورپی یونین کے ارکان کو روس کے خلاف پابندیوں کے نفاذ میں صبر اور لچک کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
بوریل نے کہا کہ یوکرین کے وزیر خارجہ دیمیترو کولیبا یورپی یونین کے وزراء کو یوکرین کی صورتحال کے بارے میں تازہ ترین معلوموت فراہم کریں گے۔
یوکرین کے وزیر خارجہ دیمیترو کولیبا نے ایک ٹویٹ میں بتایا کہ انہوں نے یورپی یونین کے وزرائے خارجہ پر زور دیا کہ وہ مزید فوجی امداد فراہم کریں، روسی انرجی پر پابندیاں لگائیں اور روسی تیل کی قیمتوں کو بڑھنے سے روکیں ۔ انہوں نے ایک ٹریبونل کے قیام کے لیے یورپی تجویز کی حوصلہ افزائی کی ،جو یوکرین کے خلاف جارحیت کے جرائم پر سزا دے سکے۔
اسی اثناء میں امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن پیر کو واشنگٹن میں یوکرین کی خاتون اول اولینا زیلنسکا سے ایک ملاقات کا اہتمام کر رہے ہیں ۔
یوکرین کی فوج نے پیر کو اطلاع دی کہ روسی گولہ باری کئی علاقوں میں جاری ہے، جن میں سلوویانسک اور خارکیف کے علاقے شامل ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
یوکرین کی فوج نے کہا کہ ڈونیٹسک کے علاقے میں، جو روس کے لیے توجہ کا مرکز ہے، روسی افواج ہوریوکا کے قریب حملہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
برطانیہ کی وزارت دفاع نے کہا کہ روس کی فوج نجی ملٹری کمپنی ویگنر کو اپنی فرنٹ لائن فورسز کو مزید کمک پہنچانے اور حملے سے روسی جانی نقصان کی تلافی کے لیے استعمال کر رہی ہے۔
وزارت کا کہنا ہے ویگنر نے یقینی طور پر حالیہ لڑائی میں مرکزی کردار ادا کیا ہے، جس میں پوپاسنا اور لائسیچنسک پرقبضہ بھی شامل ہے۔ اس لڑائی میں گروپ کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑاہے ۔
اے پی کے مطابق یوکرین کے صدر زیلنسکی نے ملک کی طاقتور سیکیورٹی ایجنسی (ایس بی یو) کے سربراہ اور پراسیکیوٹر جنرل کو اُن کے عہدوں سے برطرف کر دیا ہے۔ایس بی یو کے سربراہ ایوان بکانوف اور پراسیکیوٹر جنرل ارینا وینیڈکٹوا کی برطرفی کا اعلامیہ صدر زیلنسکی کی آفیشل ویب سائٹ پر شائع کیا گیا۔ بکانوف، صدر زیلنسکی کے بچپن کے دوست ہیں۔اور ارینا وینیڈکٹوا کو یوکرین میں روس کے جنگی جرائم کی تحقیقات کی ذمے داری سونپی گئی تھی۔ ایک اور الگ ٹیلی گرام پوسٹ میں صدر زیلنسکی نے کہا کہ برطرف افراد سے متعلق یہ اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ ان کے اداروں کے کئی کارکن روس کے ساتھ مل کر یوکرین کے خلاف ہی کام کر رہے تھے۔
(اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات ایسوسی ایٹڈ پریس، اے ایف پی اور رائٹرز سے لی گئیں )