عبوری حکومت کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ وہ "سیاسی مقاصد" رکھنے والے تمام گروہوں کے ساتھ بات چیت اور "قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ان کے مطالبات پر غور" کے لیے تیار ہیں۔
واشنگٹن —
یوکرین کی عبوری حکومت نے ملک میں جاری بحران کے حل کے لیے تمام سیاسی اور سماجی گروہوں کی گول میز کانفرنس بلانے کی تجویز دی ہے۔
عبوری صدر الیگزینڈر ٹرچینوف اور وزیرِاعظم آرسینی یٹسنیوک نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ فریقین کے درمیان اختلافات دور کرنے اور ثالثی کے لیے مجوزہ کانفرنس میں غیر ملکی مندوبین کو بھی دعوت دی جاسکتی ہے۔
جمعرات کو جاری کیے جانے والے بیان میں عبوری حکومت کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ وہ "معتبر سیاسی مقاصد" رکھنے والے تمام گروہوں کے ساتھ بات چیت اور "قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ان کے مطالبات پر غور" کے لیے تیار ہیں۔
بیان میں یوکرینی صدر اور وزیرِاعظم نے کہا ہے کہ گول میز کانفرنس کے انعقاد اور کارروائی کو موثر بنانے کے لیے 'یورپی تنظیم برائے سلامتی و تعاون (او ایس سی ای)' کے مندوبین کو بھی اس میں مدعو کیا جاسکتا ہے۔
عبوری رہنماؤں نے بیان میں اپنے اس عزم کا اعادہ بھی کیا ہے کہ وہ مشرقی یوکرین میں لڑنے والے ان افراد کو عام معافی دینے پر آمادہ ہیں جن کے ہاتھ "خون سے رنگے ہوئے نہیں ہیں"۔
یوکرین کی مغرب نواز حکومت مشرقی علاقے میں علیحدگی کی تحریک کی قیادت کرنے والوں کو "دہشت گردوں" گردانتی ہے اور اس کا موقف رہا ہے کہ تحریک کے رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات ہرگز نہیں کیے جائیں گے۔
روس یوکرینی حکومت کے اس موقف کو مسترد کرتا ہے اور اس کا اصرار رہا ہے کہ کیو حکومت تمام فریقین کے ساتھ تنازع کے حل کے لیے بات چیت کرے۔
روسی و امریکی وزرائے خارجہ میں رابطہ
دریں اثنا روس اور امریکہ کے وزرائے خارجہ نے جمعرات کو ٹیلی فون پر یوکرین بحران سے پیدا ہونے والی کشیدگی کم کرنے کی کوششوں پر تبادلۂ خیال کیا ہے۔
روس کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک بیان کے مطابق وزیرِ خارجہ سرجئی لاوروف نے اپنے امریکی ہم منصب جان کیری کو فون کیا اور کشیدگی میں کمی کے لیے کی جانے والی دو طرفہ اور یورپی یونین کی کوششوں پر گفتگو کی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ روسی وزیرِ خارجہ نے امریکی ہم منصب سے مطالبہ کیا کہ وہ کشیدگی میں کمی لانے کے لیے یوکرین کی حکومت پر دباؤ ڈالیں۔
بیان میں کہاگیا ہے کہ سرجئی لاوروف نے جان کیری پر زور دیا کہ وہ یوکرینی حکومت کو روس نواز علیحدگی پسندوں کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے پر آمادہ کریں۔
عبوری صدر الیگزینڈر ٹرچینوف اور وزیرِاعظم آرسینی یٹسنیوک نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ فریقین کے درمیان اختلافات دور کرنے اور ثالثی کے لیے مجوزہ کانفرنس میں غیر ملکی مندوبین کو بھی دعوت دی جاسکتی ہے۔
جمعرات کو جاری کیے جانے والے بیان میں عبوری حکومت کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ وہ "معتبر سیاسی مقاصد" رکھنے والے تمام گروہوں کے ساتھ بات چیت اور "قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ان کے مطالبات پر غور" کے لیے تیار ہیں۔
بیان میں یوکرینی صدر اور وزیرِاعظم نے کہا ہے کہ گول میز کانفرنس کے انعقاد اور کارروائی کو موثر بنانے کے لیے 'یورپی تنظیم برائے سلامتی و تعاون (او ایس سی ای)' کے مندوبین کو بھی اس میں مدعو کیا جاسکتا ہے۔
عبوری رہنماؤں نے بیان میں اپنے اس عزم کا اعادہ بھی کیا ہے کہ وہ مشرقی یوکرین میں لڑنے والے ان افراد کو عام معافی دینے پر آمادہ ہیں جن کے ہاتھ "خون سے رنگے ہوئے نہیں ہیں"۔
یوکرین کی مغرب نواز حکومت مشرقی علاقے میں علیحدگی کی تحریک کی قیادت کرنے والوں کو "دہشت گردوں" گردانتی ہے اور اس کا موقف رہا ہے کہ تحریک کے رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات ہرگز نہیں کیے جائیں گے۔
روس یوکرینی حکومت کے اس موقف کو مسترد کرتا ہے اور اس کا اصرار رہا ہے کہ کیو حکومت تمام فریقین کے ساتھ تنازع کے حل کے لیے بات چیت کرے۔
روسی و امریکی وزرائے خارجہ میں رابطہ
دریں اثنا روس اور امریکہ کے وزرائے خارجہ نے جمعرات کو ٹیلی فون پر یوکرین بحران سے پیدا ہونے والی کشیدگی کم کرنے کی کوششوں پر تبادلۂ خیال کیا ہے۔
روس کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک بیان کے مطابق وزیرِ خارجہ سرجئی لاوروف نے اپنے امریکی ہم منصب جان کیری کو فون کیا اور کشیدگی میں کمی کے لیے کی جانے والی دو طرفہ اور یورپی یونین کی کوششوں پر گفتگو کی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ روسی وزیرِ خارجہ نے امریکی ہم منصب سے مطالبہ کیا کہ وہ کشیدگی میں کمی لانے کے لیے یوکرین کی حکومت پر دباؤ ڈالیں۔
بیان میں کہاگیا ہے کہ سرجئی لاوروف نے جان کیری پر زور دیا کہ وہ یوکرینی حکومت کو روس نواز علیحدگی پسندوں کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے پر آمادہ کریں۔