امریکی صدر براک اوباما اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے ٹیلی فون پر یوکرین بحران کے بارے میں گفتگو کی ہے، جس دوران مسٹر اوباما نے روس کی جانب سے مشرقی یوکرین میں علیحدگی پسندوں کی حمایت کرنے پر تشویش کا اظہار کیا۔
وائٹ ہاؤس نے جمعے کے روز بتایا کہ مسٹر اوباما نے روس کی جانب سے انٹرمیڈیٹ رینج بیلاسٹک میزائل کے 1987ء کے معاہدے پر عمل درآمد نہ کرنے پر اپنی تشویش ظاہر کی، جس کے بارے میں امریکہ کا کہنا ہے کہ روس اُس کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا ہے۔
ادھر، روس کے مطابق، مسٹر پیوٹن نے امریکی صدر کو ٹیلی فون کال میں بتایا کہ علیحدگی پسندوں کی حمایت کرنے پر اِس ہفتے روس کے خلاف عائد کی جانے والی حالیہ تعزیرات ’بے سود‘ ثابت ہوں گی، اور یہ کہ اِن کی وجہ سے، ’باہمی تعاون اور بین الاقوامی استحکام کو سخت دھچکہ پہنچ سکتا ہے‘۔
اس سے قبل، آج ہی کے دِن، کئی درجن بین الاقوامی تفتیش کاروں نے مشرقی یوکرین میں ملائیشیا کے مسافر طیارے کی پرواز 17 کے گر کر تباہ ہونے کے مقام پر چھان بین کے کام کا آغاز کیا۔
یورپ کی سلامتی اور تعاون کی تنظیم کے اہل کاروں کے ہمراہ نیدرلینڈز اور آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے تفتیش کاروں نے جائے حادثہ، جسے واردات کی جگہ قرار دیا گیا ہے، باضابطہ چھان بین شروع کی۔
وہ گذشتہ ماہ بوئنگ 777طیارے کے گر کر تباہ ہونے والے مقام سے کئی درجن لاشوں کو برآمد کرنے کی کوشش کریں گے، جن کی تلاش باقی ہے، ساتھ ہی وہ ہلاک شدہ 298 افراد کا سامان برآمد کرنے کی کوشش کریں گے۔
جمعے ہی کے روز، روس نواز علیحدگی پسندوں کے ساتھ شکترک کے قصبے کے قریب ہونے والی جھڑپ میں یوکرین کے 10فوجی اہل کار ہلاک ہوئے، جو جائے حادثہ سے زیادہ فاصلے پر واقع نہیں ہے۔
یوکرین کی فضائی افواج کے قائم مقام کمانڈر، کرنل یوری ہالشکن نےکئیف میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ 13 مزید پیرا ٹروپرز زخمی ہوئے، جو اب تک لاپتا ہیں۔
یوکرین اور مغربی حکومتیں طیارے کے مار گرائے جانے کا الزام باغیوں پر دیتے ہیں۔
امریکی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ روسی میزائل استعمال کرتے ہوئے، روس نواز علیحدگی پسندوں نے مسافر طیارہ مار گرایا، جس میں کوئی شخص زندہ نہیں بچا۔
باغی روسی سرحد کے ساتھ خودمختار جمہوریہ قائم کرنے کی غرض سے پچھلے تین ماہ سے لڑ رہے ہیں۔