ایسے میں جب یوکرین اور روس امن مذاکرات کا نیا دور شروع کرنے والے ہیں، یوکرین کے صدر ولودومیرزیلنسکی نے کہا ہے کہ ''خودمختاری اور علاقائی سالمیت'' ان کے ملک کی ترجیح ہوگی۔
ویڈیو خطاب میں زیلنسکی نے کہا کہ ''ہم واقعی بلا تاخیر امن کی تلاش میں ہیں۔ ترکی میں براہ راست ملاقات کا ایک موقع ہے جو اس وقت کی ضرورت ہے۔ دیکھتے ہیں اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے''۔
زیلنسکی نے روسی صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یوکرین امن معاہدے کے ایک حصے کے طور پر غیر جانبدارانہ حیثیت اختیار کرنے کے لیے تیار ہےبشرطیکہ یہ تیسر ے فریق کی ضمانتوں کے ساتھ طے پاتا ہے اور اسے ریفرنڈم کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز نے زیلنسکی کے ایک معاون کے حوالے سے بتایا ہے کہ ترکی ان ممالک میں شامل ہے جو سلامتی کے معاملات پر یوکرین کے لیے ضامن ہو سکتے ہیں۔ ترکی تازہ ترین مذاکرات کی میزبانی کرنے والا ہے۔ ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے اتوار کو روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ فون پر بات کی۔ ایردوان کے دفتر نے کہا کہ انہوں نے خطے میں جنگ بندی اور مزید فلاحی امداد کی ضرورت پر زور دیا۔
SEE ALSO: ہم جان دے سکتے ہیں، جارحیت ہرگز قبول نہیں کر سکتے: زیلنسکی
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ یوکرین کے خلاف روسی جارحیت کے نتیجے میں ایک کروڑ افراد اپنے گھروں سے بے دخل ہوئے ہیں، جب کہ 38 لاکھ سے زائد ملک سے باہر پناہ لینے ہر مجبور ہوئے ہیں۔
برطانیہ کی وزارت دفاع نے پیر کے دن کہا ہے کہ گزشتہ ایک روز کے دوران'' مقبوضہ یوکرین میں روسی افواج کوئی خاص پیش قدمی نہیں کرسکیں'' اور یہ کہ روسی افواج جذبے اور اخلاقی جواز سے عاری ہیں۔
برطانوی وزارت دفاع نے بتایا کہ روس نے زیادہ تر جنوبی شہر، ماریوپول میں زمین پہ قبضہ کیا ہے جہاں شدید لڑائی جاری ہے، جبکہ روس نے بندرگاہ والے اس شہر پر قبضے کے لیے کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں۔