یوکرین کے ایک اعلیٰ عہدیدار کا کہنا ہے کہ روس کے ساتھ جاری جنگ میں یوکرین کو گولہ بارود کی کمی کا سامنا ہے۔
ملک کے جنوب میں واقع فرنٹ لائن کے قریب میکولائیو کے علاقے میں گورنر نے فوری طور پر بین الاقوامی فوجی امداد بھیجنے کا مطالبہ کیا ہے۔
گورنر وتالے کم کا کہنا ہے کہ روس کی فوج زیادہ طاقت ور ہے۔ اس کے پاس بہت زیادہ توپیں اور گولہ بارود ہے۔ اس وقت جنگ میں توپیں ہی اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ اس خطے میں یوکرین کا دفاع کرنے والی فورسز کے پاس گولہ بارود ختم ہو رہا ہے۔
جنگ میں دیگر ممالک سے ملنے والی فوجی امداد کا ذکر کرتے ہوئے وتالے کم کا مزید کہنا تھا کہ یورپ اور امریکہ کی امداد بہت اہم ہے۔
دوسری طرف یوکرین کے وزیر خارجہ دیمیترو کولیبا کا کہنا ہے کہ یوکرین دیگر ممالک سے مزید ہتھیاروں کے حصول کے لیے رابطے میں ہے۔
بھاری ہتھیاروں کا حصول
کولیبا ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ انہوں نے پولینڈ کے ہم منصب کے ساتھ مستقبل میں بھاری ہتھیاروں کی فراہمی پر بات چیت کی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ دونوں وزرائے خارجہ نے روس پر یورپی یونین کی مزید پابندیوں کے حوالے سے بھی بات چیت کی ہے۔
I had a call with my Polish counterpart and friend @RauZbigniew this morning to discuss next deliveries of heavy weapons to Ukraine and the seventh EU sanctions package on Russia. I also conveyed my support to his important efforts as Chairperson-in-Office of the OSCE.
— Dmytro Kuleba (@DmytroKuleba) June 11, 2022
یوکرین میں جاری جنگ سے متعلق ملنے والی رپورٹس کے مطابق ڈنباس کے علاقے میں شدید لڑائی جاری ہے جب کہ یوکرین کی فوج نے جنوب میں روس کے زیرِ قبضہ کھیرسن علاقے میں جوابی حملے شروع کر دیے ہیں۔
یورپی کمیشن کے صدر ارسلاوان ڈیر لین نے دارالحکومت کیف کا غیر اعلانیہ دورہ کیا اور یوکرینی صدر ولودیمیر زیلنسکی سے ملاقات کی، جس میں دونوں رہنماؤں نے یوکرین کی یورپی یونین میں رکنیت کے حوالے سے پیش رفت پر تبادلۂ خیال کیا۔
یوکرین کے صدر ملک کے دفاع کے لیے پر عزم
صدر یورپی کمیشن کا ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہنا تھا کہ وہ جنگ کے بعد تعمیرِ نو کے لیے درکار مشترکہ اقدامات کا جائزہ لیں گی۔ عہدیداران جلد ہی رائے کو حتمی شکل دیں گے کہ آیا یوکرین کو یورپی یونین میں شامل ہونے کا امیدوار ہونا چاہیے یا نہیں۔
انہوں نے صدر زیلنسکی کو آگاہ کیا کہ ہفتے کو ہونے والی بات چیت انہیں آئندہ ہفتے کے اختتام تک اپنے جائزے کو حتمی شکل دینے کے قابل بنائے گی۔ جب کہ زیلنسکی کا ایک نامعلوم مقام سے کہنا تھا کہ ان کا ملک یقینی طور پر اس جنگ میں غالب آئے گا، جو جنگ روس نے شروع کی ہے۔
🇺🇦🇪🇺 I’m deeply humbled by the strength and resilience of the Ukrainian people. They are defending courageously their country, in very difficult conditions.But I see life springing back in Kyiv. As you rebuild and modernise Ukraine, Європа з вами! pic.twitter.com/LJbmsOjFuP
— Ursula von der Leyen (@vonderleyen) June 12, 2022
زیلنسکی کا سنگا پور میں منعقد ہونے والے شنگری لا ڈائیلاگ ایشیا سیکیورٹی سربراہی اجلاس میں مندوبین سے خطاب میں کہنا تھا کہ یوکرین تنازعات کی وجہ سے خوراک کی فراہمی جاری رکھنے کے لیے کوشاں ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ دنیا کے کچھ ممالک کو روسی ناکہ بندی سے شدید غذائی بحران کا سامنا ہے۔
یوکرین کے محافظوں پر فخر
یوکرینی صدر زیلنسکی کا کہنا ہے کہ کوئی نہیں جانتا کہ ان کے ملک میں جنگ کب تک جاری رہے گی۔ ان کے بقول یوکرینی افواج روسی فوجیوں کو مشرقی یوکرین پر قبضے سے روک کر توقعات کے برعکس ڈٹی ہوئی ہیں۔ جہاں ہفتوں سے شدید جنگ جاری ہے۔
زیلنسکی کا رات گئے ویڈیو خطاب میں کہنا تھا کہ انہیں یوکرین کے محافظوں پر فخر ہے جو روس کی سرحد سے متصل ڈونباس کے علاقے میں روسی پیش قدمی کو روکے ہوئے ہیں اور جہاں ماسکو کے حمایت یافتی علیحدگی پسند آٹھ برس سے اکثریتی علاقے پر قابض ہیں۔
جنگ کا 108واں دن
زیلنسکی کا مزید کہنا تھا کہ انہیں یاد ہے کہ کس طرح روس رواں سال مئی میں ڈونباس پر قبضہ کرنے کے لیے پُر امید تھا۔
ان کے بقول یہ جنگ کا 108واں دن ہے اور ڈونباس اب بھی ان کے پاس ہے۔