رسائی کے لنکس

پرویز مشرف کی خرابیٔ صحت، حکومت کا وطن واپسی پر رکاوٹ نہ ڈالنے کا عندیہ


پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی علالت کی اطلاعات پر کہا ہے کہ جنرل مشرف کی خراب صحت کے پیش نظر ان کے وطن واپس آنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔

ہفتے کو اپنی ایک ٹویٹ میں خواجہ آصف نے سابق صدر کی صحت کے لیے دعا کرتے ہوئے کہا کہ ماضی کے واقعات کو اُن کی وطن واپسی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے ۔اللہ ان کو صحت دے تاکہ وہ عمر کے اس حصہ میں وقار کے ساتھ اپنا وقت گزار سکیں۔

خیال رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے کئی رہنما ماضی میں سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سخت زبان استعمال کرتے رہے ہیں۔ اُن کے خلاف آئین سے غداری کا مقدمہ بھی مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں چلایا گیا تھا۔

پشاور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں خصوصی عدالت نے 2019 میں سابق صدر پرویز مشرف کو آئین سے غداری کے الزامات کے تحت پھانسی کی سزا سنائی تھی۔ تاہم لاہور ہائی نے اس عدالت کے قیام کو غیر آئینی قرار دے دیا تھا۔

سابق صدر گزشتہ کئی برسوں سے دبئی میں مقیم ہیں اور چند برسوں سے ایک پیچیدہ بیماری میں مبتلا ہیں جس کی وجہ سے جمعے کو اُن کی وفات کی قیاس آرائیاں بھی کی جا رہی تھیں۔

پرویز مشرف کے اہلِ خانہ کی جانب سے جمعے کو اُن کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ایک ٹویٹ کیا گیا جس میں کہا گیا کہ وہ وینٹی لیٹر پر نہیں ہیں۔ البتہ علالت کے باعث وہ چند روز سے اسپتال میں ہیں۔

خواجہ آصف بھی ماضی میں پرویز مشرف کی پالیسیوں کے بڑے ناقد رہے ہیں۔
خواجہ آصف بھی ماضی میں پرویز مشرف کی پالیسیوں کے بڑے ناقد رہے ہیں۔

اہل خانہ کی طرف سے جاری بیان میں تصدیق کی گئی کہ انہیں لاحق ناقابلِ علاج بیماری امائلائیڈوسس (Amyloidosis) کی وجہ سے وہ پیچیدگیوں کا شکار ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا کہ پرویز مشرف انتہائی علیل ہیں اور وہ بیماری کی خطرناک اسٹیج پر پہنچ چکے ہیں۔

پاکستان کے سوشل میڈیا پر اس بات بھی بحث ہو رہی ہے کہ اگر پرویز مشرف کو کچھ ہو جاتا ہے تو انہیں سرکاری اعزاز کے ساتھ سپردِ خاک کیا جائے گا یا نہیں۔

صحافی وقار ستی نے ٹویٹ کی کہ حکومتی اتحاد کے لیے بڑی آزمائش شروع ہو چکی ہے۔ اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ وفاقی حکومت نے جنرل مشرف کے انتقال کی صورت میں اُنہیں پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ سپردِ خاک کرنے پر مشاورت شروع کر دی ہے۔



پرویز مشرف کی حالت تشویش ناک ہونے کی اطلاعات پر پاکستان کی اہم شخصیات اور سیاست دان اُن کی جلد صحت یابی کے لیے دعا بھی کر رہے ہیں۔

فلم اسٹار شان نے ٹویٹ کی کہ" اللہ پرویز مشرف صاحب کے لیے آسانیاں کرے"۔

ایم کیو ایم کے سابق عہدے دار واسع جلیل نے بھی سابق صدر پرویز مشرف کی جلد صحت یابی کے لیے دعا کی ہے۔


سابق صدر پرویز مشرف کی حالت تشویش ناک ہونے پر پاکستان فوج کا ردِعمل اب تک سامنے نہیں آسکا۔

تاہم خصوصی عدالت کی طرف سے پرویز مشرف کو پھانسی دینے کے فیصلے کے بعد افواجِ پاکستان کے ترجمان نے ایک ٹویٹ میں اس فیصلے پر تنقید کی تھی۔

اس وقت کی حکومت نے جسٹس وقار سیٹھ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھجوانے اور ان کی دماغی صحت کا معائنہ کروانے کا کہا تھا۔ کرونا وبا کے دنوں میں جسٹس وقار سیٹھ اسلام آباد کے ایک اسپتال میں کرونا کی وجہ سے وفات پا گئے تھے۔

سابق صدر کے خلاف مقدمہ کیا تھا؟

سابق صدر پرویز مشریف کو 17دسمبر2019 کو خصوصی عدالت نے آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت ملک سے غداری کا جرم ثابت ہونے پر سزائے موت سنائی تھی۔

تفصیلی فیصلے میں عدالت نے کہا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے مجرم کو گرفتار کرکے سزائے موت پر عمل درآمد کرائیں۔

اس فیصلے پر پاکستان کی فوج کی طرف سے شدید ردعمل دیکھنے میں آیا تھا۔ بعد میں حکومت نے بھی اس فیصلے کے خلاف اقدامات اٹھانے کا اعلان کیا تھا۔

نومبر 2007 کو پرویز مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے آئین معطل اور میڈیا پر پابندی عائد کی تھی جبکہ چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چوہدری سمیت سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس کے ججز کو گھروں میں نظر بند کر دیا گیا تھا۔

پاکستان میں آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت آئین کو توڑنا اور اس کام میں مدد کرنا ریاست سے سنگین غداری کا جرم ہے جس کی سزا موت ہے۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف نے 26 جون 2013 کو انکوائری کے لیے وزارت داخلہ کو خط لکھا جس پر وزارت داخلہ نے ایف آئی اے کی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جس نے 16 نومبر 2013 کو رپورٹ جمع کرائی۔

اس وقت لا ڈویژن کی مشاورت کے بعد 13 دسمبر 2013 کو پرویز مشرف کے خلاف شکایت درج کرائی گئی جس میں ان کے خلاف سب سے سنگین جرم متعدد مواقع پر آئین معطل کرنا قرار پایا تھا۔

پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ 6 سال سے زائد چلا۔ وہ صرف ایک دفعہ عدالت میں پیش ہوئے اور پھر ملک سے باہر چلے گئے۔

XS
SM
MD
LG