یوکرین کی امن مذاکرات میں شرکت سے معذرت

مشرقی ڈونیسک میں فوجی مشق

یوکرینی حکومت کے نمائندے کا کہنا ہے کہ باغیوں کو چاہیئے کہ اس بات کا ثبوت پیش کریں کہ درحقیقت وہ امن کے خواہاں ہیں، جنگ نہیں چاہتے؛ اور یہ کہ اپنے مسلح دستوں پر اُن کا مکمل کنٹرول ہے

روس کے حامی علیحدگی پسندوں پر حالیہ حملوں کا الزام عائد کرتے ہوئے، یوکرین نے کہا ہےکہ مشرقی یوکرین کے تنازع کے خاتمے کے لیے اس ہفتے ہونے والے مذاکرات میں وہ شریک نہیں ہوگا، جس سے قبل، دونوں فریق نے خودساختہ ’ڈے آف سائلنس‘ منایا تھا۔

باغیوں کے ساتھ بات چیت میں یوکرینی حکومت کے نمائندے اور ایک سابق صدر، لیونڈ کشما نے بدھ کے روز بتایا کہ وہ کسی ملاقات کو ’مناسب‘ نہیں گردانتے، چونکہ، جنگ بندی کا انحصار کسی ایک فریق پر نہیں ہوتا۔

اُنھوں نے کہا کہ باغیوں کو چاہیئے کہ اس بات کا ثبوت پیش کریں کہ درحقیقت وہ امن کے خواہاں ہیں، اور جنگ نہیں چاہتے؛ اور یہ کہ، اپنے مسلح دستوں پر اُن کا مکمل کنٹرول ہے۔

تنازع کے وسیع تر حل کے سلسلے میں مذاکرات جمعے کو بیلاروس میں ہونے کی توقع کی جا رہی تھی۔

یرکرین کی فوج نے بدھ کو بتایا کہ دونوں فریق نے 12 گھنٹوں کے دوران 24 حملے کیے، جس سے پہلے دونوں فریق نے ’ڈے آف سائلنس‘ کے نام سے حملے بند کردیے تھے۔


اس میں کہا گیا ہے کہ باغیوں نے گرنیڈ لانچروں، میزائل شکن ٹینک، بھاری دہانے کے گولے، ہلکا اسلحہ اور ٹینک کے ہتھیار استعمال کیے۔

’ڈے آف سائلنس‘ کا مقصد دونوں فریق کی ہمت افزائی کرنا تھا کہ وہ وسیع تر جنگ بندی پر عمل درآمد کریں، جس پر ستمبر میں دونوں فریق رضامند ہوئے تھے۔

جنگ بندی کو وقفے وقفے سے دھکچا لگتا رہا ہے، ایسے میں جب کہ محاذِ جنگ سے بھاری ہتھیار واپس لانے کی شروعات کی جائے گی، تاکہ بفر زون کو تشکیل دیا جاسکے۔

امریکہ اور اُس کے اتحادیوں نے روس کے خلاف سخت معاشی تعزیرات عائد کر رکھی ہیں، جس کا سبب روس کی طرف سے باغیوں کی حمایت جاری رکھنا ہے۔