امریکی صدر براک اوباما نے امریکہ کے چین اور روس کے ساتھ تعلقات پر خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ چین سے امید افزا ناطوں کی توقع ہے، جب کہ روس کے ساتھ تعلقات پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے، اُنھوں نے کہا کہ یہ مخاصمانہ تبادلوں کے روابط میں تبدیل ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔
مسٹر اوباما نے یہ بیان بدھ کو واشنگٹن میں ’کاروباری راؤنڈٹیبل گروپ‘ کے سوال و جواب کی نشست میں شرکت کرتے ہوئے دیا، جن کے ارکان کا تعلق امریکہ کے بہت بڑے اداروں کے منتظمین اعلیٰ سے تھا۔
مسٹر اوباما نے چین کے صدر ژی جِن پنگ کو سراہتے ہوئے کہا کہ دینگ ژیاؤ پنگ کے بعد وہ اقتدار میں آنے والے ملک کے سب سےطاقتور لیڈر ہیں۔ دینگ ژیاؤپنگ نے 1978ء سے 1992ء تک چین کی قیادت کی۔
بقول اُن کے، اِنھوں نے شاید دینگ ژیاؤپنگ کے بعد مربوط طور پر چین میں سب سے زیادہ اختیارات سمیٹ لیے ہیں۔ چین میں، اُن کی حیثیت پر سبھی مرعوب ہیں، جب کہ اُنھیں اقتدار میں آئے بمشکل ڈیڑھ یا دو برس ہوئے ہیں۔
تاہم، مسٹر اوباما نے کہا کہ مسٹر ژی کا کنٹرول انسانی حقوق سے متعلق معاملات پر نئے خدشات کو جنم دیتا ہے، ایسے میں جب اختلاف رائے رکھنے والوں کے خلاف اقدام کیا جاتا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ ژی کی قوم پرستی ملک کے ہمسایوں کے لیے پریشانی کا باعث ہے، جس میں بحیرہٴجنوبی چین پر بحری حدود کے تنازعات شامل ہیں۔
مسٹر اوباما نے کہا ہے کہ اُن کے خیال میں چین امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے میں خاصی دلچسپی رکھتا ہے، باوجود یہ کہ امریکہ اُس پر الزام لگاتا ہے کہ چین امریکی کاروباروں اور سرکاری اداروں کو سائبر حملوں کا ہدف بنا رہا ہے، جسے بند کیا جانا چاہیئے۔
مسٹر اوباما نے کہا کہ اُنھیں روس کے ساتھ تعلقات پُرامید نہیں دکھائی دیتے، خاص طور پر، صدر ولادیمیر پیوٹن کے ہوتے ہوئے۔ امریکی سربراہ نے کہا کہ اُن کے پیوٹن کے ساتھ ’براہ راست، کھرے اور کاروباری نوعیت کے تعلقات ہیں‘۔
یوکرین میں مداخلت اور روس کی سرحد سے ملحق ملکوں کو درپیش خطرات کے حوالے سے، صدر اوباما نے مسٹر پیوٹن پر نکتہ چینی کی۔
مسٹر اوباما نے کہا کہ یوکرین پر مسٹر پیوٹن کا مؤقف ’روس میں داخلی طور پر، سیاسی نقطہ نظر سے اُن کے لیے سودمند ہوسکتا ہے، حالانکہ اِس کے باعث بین الاقوامی سطح پر، روس مکمل طور پر اکیلا رہ گیا ہے‘۔