یوکرین نے یورپی یونین کے ساتھ سیاسی تعاون کو فروغ دینے کے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں جسے کیو حکومت نے روسی مداخلت کا جواب قرار دیا ہے۔
واشنگٹن —
روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے کرائمیا کے ماسکو کے ساتھ الحاق کے قانون پر دستخط کردیے ہیں جس کے بعد یوکرین کے نیم خود مختار علاقے کی روس میں شمولیت کا عمل مکمل ہوگیا ہے۔
دوسری جانب یوکرین نے یورپی یونین کے ساتھ سیاسی تعاون کو فروغ دینے کے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں جسے کیو حکومت نے روسی مداخلت کا جواب قرار دیا ہے۔
کرائمیا میں اتوار کو ہونے والے ریفرنڈم میں 95فی صد رائے دہندگان نے یوکرین سے آزادی اور روس کے ساتھ الحاق کے حق میں ووٹ دیا تھا جس کے بعد کرائمیا کی مقامی حکومت نے ماسکو سے الحاق کی درخواست کی تھی۔
جمعے کو روسی پارلیمان کے ایوانِ بالا 'فیڈریشن کونسل' نے بھی کرائمیا کے الحاق کا قانون متفقہ طور پر منظور کرلیا جس کے بعد 'کریملن' میں ہونے والی ایک تقریب میں روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے اس قانون پر دستخط کردیے۔
روسی صدر کے دستخط کے بعد یہ قانون نافذ ہوگیا ہے جس کے تحت کرائمیا کو روسی وفاق کے زیرِ انتظام علاقے کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔
روسی پارلیمان کے ایوانِ زیریں 'ڈوما' نے جمعرات کو ہی اس قانون کی منظوری دیدی تھی۔ اس سے قبل صدر پیوٹن اور کرائمیا کے رہنماؤں نے منگل کو الحاق کی دستاویز پر دستخط کیے تھے جس کےبعد اسے منظوری کے لیے روسی پارلیمان کو بھیجا گیا تھا۔
دوسری جانب جمعے ہی کو برسلز میں یوکرین کے عبوری وزیرِاعظم آرسینی یاٹسنیوک نے یورپی یونین کے ساتھ قریبی سیاسی تعاون کے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں جسے یوکرینی رہنماؤں نے روسی اقدامات کا جواب قرار دیا ہے۔
معاہدے پر دستخطوں کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے یوکرینی وزیرِاعظم کا کہنا تھا کہ کرائمیا میں روس کی فوجی مداخلت کے بعد ان کے ملک کے پاس دو ہی راستے بچے تھے جن میں سے انہوں نے پرامن راستے کا انتخاب کیا ہے۔
جناب یاٹسنیوک کا کہنا تھا کہ پہلا راستہ روسی مداخلت کا عسکری جواب دینا تھا جو دنیا کو قبول نہیں ہوتا کیوں کہ اس کے نتیجے میں تیسری عالمی جنگ چھڑ سکتی تھی۔ ان کے بقول، دوسرا راستہ سیاسی، سفارتی اور معاشی حکمتِ عملی کے ذریعے روسی بالادستی کوختم کرنا تھا جسے ان کے ملک نے منتخب کیا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یورپی یونین کے ساتھ اس معاہدے کے تحت فوری طور پر یوکرین کی زمینی صورتِ حال میں کوئی تبدیلی آنے کا امکان نہیں ہے۔
تاہم یوکرین کے نائب وزیرِ خارجہ ڈینیلو لبکیوسکی نے کہا ہے کہ اس معاہدے کے نتیجے میں ان کے ملک کو ان کئی مشکلات پر قابو پانے میں مدد ملی گی جن کا یوکرین کو اس وقت سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
دوسری جانب یوکرین نے یورپی یونین کے ساتھ سیاسی تعاون کو فروغ دینے کے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں جسے کیو حکومت نے روسی مداخلت کا جواب قرار دیا ہے۔
کرائمیا میں اتوار کو ہونے والے ریفرنڈم میں 95فی صد رائے دہندگان نے یوکرین سے آزادی اور روس کے ساتھ الحاق کے حق میں ووٹ دیا تھا جس کے بعد کرائمیا کی مقامی حکومت نے ماسکو سے الحاق کی درخواست کی تھی۔
جمعے کو روسی پارلیمان کے ایوانِ بالا 'فیڈریشن کونسل' نے بھی کرائمیا کے الحاق کا قانون متفقہ طور پر منظور کرلیا جس کے بعد 'کریملن' میں ہونے والی ایک تقریب میں روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے اس قانون پر دستخط کردیے۔
روسی صدر کے دستخط کے بعد یہ قانون نافذ ہوگیا ہے جس کے تحت کرائمیا کو روسی وفاق کے زیرِ انتظام علاقے کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔
روسی پارلیمان کے ایوانِ زیریں 'ڈوما' نے جمعرات کو ہی اس قانون کی منظوری دیدی تھی۔ اس سے قبل صدر پیوٹن اور کرائمیا کے رہنماؤں نے منگل کو الحاق کی دستاویز پر دستخط کیے تھے جس کےبعد اسے منظوری کے لیے روسی پارلیمان کو بھیجا گیا تھا۔
دوسری جانب جمعے ہی کو برسلز میں یوکرین کے عبوری وزیرِاعظم آرسینی یاٹسنیوک نے یورپی یونین کے ساتھ قریبی سیاسی تعاون کے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں جسے یوکرینی رہنماؤں نے روسی اقدامات کا جواب قرار دیا ہے۔
معاہدے پر دستخطوں کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے یوکرینی وزیرِاعظم کا کہنا تھا کہ کرائمیا میں روس کی فوجی مداخلت کے بعد ان کے ملک کے پاس دو ہی راستے بچے تھے جن میں سے انہوں نے پرامن راستے کا انتخاب کیا ہے۔
جناب یاٹسنیوک کا کہنا تھا کہ پہلا راستہ روسی مداخلت کا عسکری جواب دینا تھا جو دنیا کو قبول نہیں ہوتا کیوں کہ اس کے نتیجے میں تیسری عالمی جنگ چھڑ سکتی تھی۔ ان کے بقول، دوسرا راستہ سیاسی، سفارتی اور معاشی حکمتِ عملی کے ذریعے روسی بالادستی کوختم کرنا تھا جسے ان کے ملک نے منتخب کیا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یورپی یونین کے ساتھ اس معاہدے کے تحت فوری طور پر یوکرین کی زمینی صورتِ حال میں کوئی تبدیلی آنے کا امکان نہیں ہے۔
تاہم یوکرین کے نائب وزیرِ خارجہ ڈینیلو لبکیوسکی نے کہا ہے کہ اس معاہدے کے نتیجے میں ان کے ملک کو ان کئی مشکلات پر قابو پانے میں مدد ملی گی جن کا یوکرین کو اس وقت سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔