یوکرین پر روس کے حملے اور جاری جنگ کے نتیجے میں، عالمی امور کے ماہرین کے بقول ملکوں کے نئے اتحاد بنتے نظر آ رہے ہیں۔ امریکہ، نیٹو اور امریکہ کے دوسرے اتحادی ممالک اس جنگ کی مخالفت کر رہے ہیں اور یوکرین کو اپنا دفاع کرنے کے لیے ہر ممکن مدد فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔جب کہ پاکستان، چین، بنگلہ دیش اور کوارڈ یعنی امریکہ، آسٹریلیا، بھارت اور جاپان کے گروپ میں شامل اور امریکہ کے اتحادی بھارت اور عراق، ایران وغیرہ سمیت 35 ممالک نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس حملے کے لیے روس کی مذمتی قرار داد پر ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ ان ممالک کا موقف ہے کہ اس مسئلے کو سفارت کاری اور باہمی افہام و تفہیم سے حل کیا جانا چاہئیے۔ جب کہ بیلا روس، شمالی کوریا، اریٹیریا اور شام نے قرارداد کی مخالفت میں روس کے ساتھ ووٹ دیا۔ اور 193 میں سے 141 ملکوں نے قرارداد مذمت کی حمایت میں ووٹ دیا۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اس رجحان کو جو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں نظر آیا، دیکھتے ہوئے اور بعض ممالک کے رویوں کے پیش نظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ملکوں کے نئے اتحاد بننے یا ری الائنمنٹ کا آغاز ہو گیا ہے اور آنے والے دنوں میں زیادہ واضح تصویر ابھر کر سامنے آئے گی۔
ایلان برمن واشنگٹن میں قائم امریکن فارن پالیسی کونسل کے سینئیر نائب صدر ہیں۔ اس بارے میں وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتے کہ موجودہ حالات میں ملکوں کے نئے اتحاد وجود میں آنے کے امکانات موجود ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ابھی یوکرین پر حملے اور جنگ کے ابتدائی دن ہیں لیکن دو بڑے رجحانات دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ اوّل تو یہ کہ تاریخ خود کو دہرانے کے عمل سے گزر رہی ہے۔ جسے آپ تاریخ میں واپسی بھی کہہ سکتے ہیں۔ گزشتہ کوئی30 برسوں کے دوران اس بارے میں بہت بات ہوتی رہی ہے کہ سابقہ سوویت یونین کا خاتمہ کس طرح تاریخ کے ایک دور کے اختتام اور آخر کار لبرل ڈیموکریسی یا اعتدال پسند جمہوریت کی کامیابی پر منتج ہوا۔ اور اب ہم ایک بار پھر اسی صورت حال سے دو چار ہیں جو 18ویں اور 19ویں صدی میں تھی۔ یعنی بڑی طاقتوں کے درمیان مقابلہ اور اسی نوعیت کا تصادم جو عالمی جنگوں سے پہلے دیکھنے میں آیا تھا اور یہ واضح ہو گیا ہے کہ روسی نئے ضوابط کے بجائے پرانے طریقے اختیار کر رہے ہیں۔
دوسرا رجحان یہ ہے کہ اب جب کہ ہم سابقہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد اس دور کی سرد جنگ کے خاتمے کے دور کے بعد کے عہد سے گزر رہے ہیں، جس دوران کوئی بڑا خطرہ نہیں تھا۔ لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ ایک بار ہم پھر اسی دور کی جانب جا رہے ہیں جو بڑی طاقتوں کے اتحاد کا دور تھا۔ جس میں بڑی طاقتوں کے ہر بلاک کے ملکوں کے درمیان گہرا اتحاد تھا۔ اور جس دوران نیٹو جیسے بلاکس پر توجہ دی گئی جو بڑی حریف طاقتوں کو بڑا مد مقابل بننے سے روکنے کے لیے ضروری تھے۔
آنے والے دنوں میں ملکوں کا جو ری الائنمنٹ متوقع ہے، اس میں چین کا رول بہت اہم ہو گا۔ امریکہ بجا طور پر بڑی طاقتوں کے مقابلے یا مسابقت میں چین کو حریف سمجھتا ہے۔ اور چین اس وقت اس بات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے کہ یوکرین میں ولادی میر پوٹن کی جنگ کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ مغرب اس کا کس طرح جواب دیتا ہے۔
SEE ALSO: یوکرین کو امریکہ کی جانب سے 10 ارب ڈالرز کی فوجی اور انسانی امداد ملنے کا امکانچین یہی دیکھنے کا منتظر ہے اور مغرب کی جانب سے اس جنگ کے جواب پر آئندہ بہت ساری باتوں کا انحصار ہے۔ جس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ چین تائیوان کے خلاف اقدام کرتا ہےیا نہیں کرتا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت جیسے ملکوں کی صورت حال مختلف ہے۔ وہ طاقتور تو ہیں مگر چھوٹے ہیں۔ وہ نئی صورت حال او ر نئی عالمی ری الائنمنٹ پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ بھارت جیسے ملک روائتی غیر وابستگی کے اصولوں، روس کے ساتھ تعلقات اور مغرب کی جانب اس نئے جھکاؤ کے درمیان پھنس گئے ہیں۔ جو بقول ان کے حال ہی میں دیکھنے میں آیا ہے۔
پاکستان کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان روس کی جانب ہے۔ تاہم پاکستان اس کی تردید کرتا ہے اور کہتا کہ وہ کسی بلاک کے ساتھ نہیں ہے اور چاہتا ہے کہ معاملات سفارت کاری کے ذریعے حل کیے جائیں۔ ایلان برمن کا کہنا تھا کِہ یہ ایک بڑی منفرد صورت حال ہے اور مشرق وسطی کے ملکوں سمیت بہت سے ملک ابھی طے نہیں کرسکے ہیں کہ اس نئی صورت حال میں وہ کس طرف جائیں۔ وہ ابھی حالات کا جائزہ لے رہے ہیں۔
چین اور روس کے درمیان کتنی ہم آہنگی ہے۔ اس بارے میں ان کا کہنا تھا امریکہ اور مغرب کی مخالفت کی قدر مشترک کے سبب چین اور روس یقینًا ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں۔ اور اس نقطہ نظر سے دیکھا جائےتو اندازہ ہو گا کہ یوکرین کی جنگ میں بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔ کیونکہ چین اپنے آئندہ رویوں کا اور اپنے اسٹریٹیجک مقاصد کا تعین یوکرین کی جنگ میں امریکہ اور وسیع تناظر میں مغرب کے رول کو دیکھتے ہوئے ہی کرے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے کہا کہ اس تصادم کے نتیجے میں روس کمزور ہو گا۔ یہ چین کے لیے بہت اہم ہے کیونکہ ایک کمزور روس چین کے واسطے پارٹنر شپ کے لیے اپنی اہمیت کھو دے گا۔ لیکن اس سے چین کو یہ اندازہ ہو جائے گا کہ اگر وہ اپنی ترجیحات کےمطابق جیسے کہ تائیوان پر بزور طاقت قبضہ وغیرہ کرتے ہوئے آگے بڑھتا ہے تو مغرب کس طرح جواب دے گا۔
انہوں نے کہا کہ نئے اتحادوں کا بیشتر انحصار یو کرین کی جنگ کے نتائج پر ہے۔
ڈاکٹر ہما بقائی انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن سے وابستہ ہیں۔ اور عالمی امور پر نظر رکھتی ہیں۔ وائس آف امریکہ سے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہونے والی ووٹنگ نئے اتحادوں کی جانب واضح اشارہ کرتی نظر آتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتی ہیں کہ اس وقت چین کی خاموشی اور بظاہر غیر جانبداری بہت با معنی ہے۔ اور وہ غیر جانبداری کا تاثر دینے کی کوشش کر رہاہے۔ اور اگر ضرورت پڑی تو وہ اپنا وزن روس کے پلڑے میں ڈال دے گا۔ یہ صورت حال اس کے حق میں ہے۔ روس نے جو کچھ یوکرین میں کیا ہے، چین وہی تائیوان میں کر سکتا ہے۔
ڈاکٹر ہما بقائی کا کہنا تھا کہ ملکوں کے نئے اتحاد بننے کے علاوہ اس جنگ کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلے گا کہ مزید ملک جوہری ہتھیاروں کے حصول کی کوششوں میں لگ جائیں گے۔ کیونکہ اب یہ بات سر عام کی جارہی ہے کہ اگر یوکرین کے پاس جوہری تحفظ ہوتا تو روس اس پر حملہ نہ کرتا اور انہوں کہا کہ برصغیر میں اس کی واضح مثال نظر آتی ہے جہاں پاکستان بقول ان کے اپنے نیوکلیر ڈےٹرینٹ کی وجہ سے محفوظ ہے۔اور اب متعدد چھوٹےممالک انہیں حاصل کرنا چاہیں گے اور بڑی طاقتوں کی بالا دستی سے بچنے کے لیے ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے۔
لیکن ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حتمی صورت حال کا انحصار یوکرین کی جنگ کے نتائج پر ہے جہاں ایک بڑی طاقت نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا ہے۔ جس کے پاس اب پیچھے ہٹنے کا کوئی آپشن نہیں ہے اور کم و بیش وہی صورت حال ہے جو افغانستان پر اس وقت کے سوویت یونین کے حملے سے پیدا ہوئی تھی۔