کٹر یہودی مظاہرین کا بھرتی کے خلاف اسرائیلی فوجی مرکز پر مظاہرہ

فوجی بھرتی کے قانون کے خلاف اپنے روایتی لباس میں ملبوس ایک الٹرا آرتھوڈکس یہودی احجاج کر رہا ہے۔ 5 اگست 2024

  • الٹرا آرتھوڈکس یہودیوں نے تل ابیب کے قریب ایک فوجی مرکز میں گھس کر بھرتی کے خلاف مظاہرہ کیا۔
  • مذہبی تعلیم اور رسوم سے منسلک یہودی گروپ ہریڈین کو لازمی فوجی بھرتی سے استثنا حاصل تھا جسے جون میں سپریم کورٹ نے منسوخ کر دیا۔
  • یہ مظاہرہ بھرتی کے لیے احکامات جاری ہونے کے خلاف ہوا۔
  • ہریڈین کی تعداد اسرائیل کی کل آبادی کا 13 فی صد ہے جس میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

ویب ڈیسک۔۔۔۔درجنوں کٹر مذہبی یہودی مظاہرین نے منگل کے روز تل ابیب کے قریب ایک فوجی مرکز پرمظاہرہ کیا اور اس کے اندر گھس گئے۔

انہوں نے یہ مظاہرہ فوج میں بھرتی کے احکامات کےخلاف کیا۔ اس سے قبل مذہبی تعلیم اور عبادات کے امور سے منسلک یہودیوں کو فوج میں لازمی بھرتی سے استثنا حاصل تھا، جسے حال ہی میں عدالت نے منسوخ کر دیا تھا، جس سے ان میں اشتعال بڑھ رہا ہے۔

یہ مظاہرے ایک ایسے وقت ہو رہے ہیں جب اسرائیل ایران کی جانب متوقع میزائل حملوں کے لیے خود کو تیار کر رہا ہے۔ غزہ میں جاری جنگ کے دس مہینوں کے بعد اسرائیلی معاشرے میں پائی جانے والی تفریق اور تقسیم اب ابھر کر سامنے آنا شروع ہو گئی ہے۔

فوج نے فوجی مرکز تل ھشومیر کے اندر مظاہرین کے گھسنے کے واقعہ کی مذمت کی ہے،جنہیں بعد ازاں پولیس نے باہر نکال دیا تھا۔

تل ابیب کے قریب واقع فوجی مرکز تل ھشومیر میں فوجی بھرتی کے لیے ناموں کا اندارج کرانے کے پہلے دن کٹر یہودی احتجاج کر رہے ہیں۔ 5 اگست 2024

اسرائیلی فوج ( آئی ڈی ایف) کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ فوجی مرکز کے اندر گھسنا ایک سنگین جرم اور قانون کے خلاف ہے۔ آئی ڈی ایف اس پرتشدد رویے کی مذمت کرتی ہیں اور مظاہرین کو انصاف کے کٹہرے میں لانے پر زور دیتی ہیں۔

اسرائیلی پولیس کی جانب سے شیئر کی گئی ویڈیو فوٹیج میں درجنوں مردوں کو فوجی مرکز کے باہر پولیس کا سامنا کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ مظاہرین نے سیاہ لباس اور سیاہ ہیٹ پہنے ہوئے تھے، جو روایتی طور پر الٹرا آرتھوڈکس یہودی کمیونٹی کا لباس ہے۔

اسرائیل کی سپریم کورٹ نے جون میں حکومت کو حکم دیا تھا کہ وہ کٹر یہودی مدرسوں میں زیر تعلیم نوجوانوں کو فوج میں لازمی بھرتی سے حاصل استثنا ختم کر دے۔ اس حکم پر وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے حکومتی اتحاد میں شامل مذہبی جماعتوں اور مذہبی کمیونٹی نے شدید اعتراضات کیے تھے۔

پولیس مظاہرین کو فوجی مرکز کے اندر جانے سے روک رہی ہے۔ 5 اگست 2024

لازمی بھرتی کے لیے ابتدائی احکامات تقریباً دو ہفتے قبل جاری کیے گئے تھے جن کے مطابق اب انہیں بھرتی کے مراکز میں پیش ہونا تھا۔

الٹرا آرتھوڈکس یہودیوں کے لیے فوجی بھرتی سے استثنا کے مسودہ قانون کا تعلق اسرائیل ریاست کے قیام کے ابتدائی دنوں سے ہے جب پہلے وزیراعظم ڈیوڈ بین گوریون نے تقریباً 400 مذہبی طلبہ کو فوجی بھرتی سے استثنا دیا تھا تاکہ وہ اپنے آپ کو مذہبی تعلیم کے لئے وقف کر سکیں۔

گوریون نے یہ استثنا دیتے ہوئے اس توقع کا اظہار کیا تھا کہ اس اقدام سے مذہبی علم اور روایات کو زندہ رکھنے کی راہ ہموار ہو گی جسے ہالوکاسٹ کی وجہ سے شدید نقصان پہنچا تھا۔

کٹر مذہبی گروپ ’ہریڈین‘ کون ہیں

‘الٹرا آرتھوڈکس یا کٹر مذہبی گروپ ’ہریڈین‘ کے نام سے اپنی پہچان رکھتا ہے۔ یہ ہبرو زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے خدا سے ڈرنے والا۔ ہبرو ایک قدیم زبان ہے جو لگ بھگ 1200 قبل از مسیح میں رائج تھی ۔ اب یہ اسرائیل میں بولی جانے والی زبان ہے۔

اسرائیل کے پہلے وزیراعظم گوریون نے جب مذہبی تعلیم اور روایات سے منسلک ہریڈین گروپ کو لازمی فوجی بھرتی سے استثنا دیا تھا تو اس وقت ان کی تعداد بہت کم تھی۔ لیکن وقت کے ساتھ یہ گروپ پھیلتا چلا گیا اور اس وقت ان کی تعداد اسرائیل کی کل آبادی کا لگ بھگ 13 فی صد ہے۔ جس سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور انہیں بھی لازمی بھرتی کے دائرے میں لانے پر زور دیا جا رہا ہے۔

SEE ALSO: اسرائیلی سپریم کورٹ: الٹرا آرتھوڈوکس یہودیوں کو فوج میں شامل کرنے کا حکم

ماہرین کا اندازہ ہے کہ ہریڈین گروپ کی تیزی سے بڑھتی ہوئی شرح پیدائش کے پیش نظر اگلے 40 برسوں میں ان کی تعداد کل آبادی کا ایک تہائی ہو جائے گی۔ اتنی بڑی تعداد کو فوجی خدمات سے باہر رکھنا اسرائیل جیسے ملک کے لیے سلامتی کے مسائل کھڑے کر سکتا ہے۔

غزہ جنگ اور ایران کے ساتھ جنگ بڑھنے کے خدشات، جنوبی لبنان میں ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ تحریک اور خطے کی صورت حال نے فوجی بھرتی کے مسئلے کو مزید اجاگر کر دیا ہے۔

فوج کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘الٹرا آرتھوڈکس شہریوں کا بھرتی کے لیے اندارج ایک فوجی ضرورت ہے۔ یہ کام قانون کے مطابق کیا جا رہا ہے اور فوج اسے آگے بڑھانے کے لیے پرعزم ہے‘۔

(اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات رائٹرز سے لی گئیں ہیں)