گذشتہ بارہ ماہ کے دوران انسانی حقوق کے مبصرین اورمقامی حکام نے جو اعداد و شمار اکٹھے کیے ہیں اُن سے پتا چلتا ہے کہ سول سوسائٹی کی تنظیموں، حکومت اور بین الاقوامی عناصر نےخواتین کے خلاف رونما ہونے والی تشدد کی کارروائیوں کے بارے میں عام آدمی کو حوصلہ بخش آگہی دی ہے، جس سے اُن میں ایک نئی امنگ اور نیا ولولہ پیدا ہوا ہے
واشنگٹن —
افغانستان میں اقوام متحدہ کےمشن نے صدر حامد کرزئی کی حکومت پر زور دیا ہے کہ خواتین کے خلاف تشدد کے انسداد کے بارے میں وضع کردہ قانون پرعمل درآمد کو بڑھایا جائے۔ ساتھ ہی، مشن نے کہا ہے کہ افغان خواتین کی مکمل حفاظت کو یقینی بنانے میں ایک طویل عرصہ درکار ہوگا۔
منگل کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں اقوام متحدہ کے عہدے داروں نے کہا ہے کہ مجموعی طور پر اِس قانون پر عمل درآمد برائے نام ہورہا ہے۔ اُن کا یہ تخمینہ اکتوبر 2011ء سے ستمبر 2012ء کے دوران عہدے داروں سے مشاورت اور ملک بھر سے اکٹھے ہونے والے اعداد و شمار کی بنیاد پر لگایا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اب بھی تشدد کی کارروائیوں میں اضافہ جاری ہے، جِن میں خواتین کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔
گذشتہ 12 ماہ کے عرصے میں انسانی حقوق کے مبصرین اور مقامی حکام نے جو اعداد و شمار اکٹھے کیے ہیں اُن سے پتا چلتا ہے کہ سول سوسائٹی کی تنظیموں، حکومت اور بین الاقوامی عناصر نےخواتین کے خلاف رونما ہونے والی تشدد کی کارروائیوں کے بارے میں عام آدمی کو حوصلہ بخش آگہی فراہم کی ہے، جس کے باعث اُن میں ایک نئی امنگ اور ایک نیا ولولہ پیدا ہوا ہے۔
افغان حکومت نے اگست 2009ء میں خواتین کےخلاف تشدد کی کارستانیوں کے انسداد سے متعلق قانون بنایا۔ اس میں کم عمری کی شادی، زبردستی کا بیاہ، کسی جھگڑے کےتصفیے کے بدلے خاتون یا بچی کو حوالے کر دینا، خودسوزی، اور خواتین کے خلاف 20دیگر مجرمانہ حرکات، جن میں زنا بالجبر بھی شامل ہے۔ اس قانون میں اِن جرائم کے خلاف مجوزہ سزاؤں کی تفاصیل بھی دی گئی ہیں۔
مشن کی انسانی حقوق سے متعلق ڈائریکٹر، جورجیٹ گاگنون نے کہا ہے کہ پولیس کی طرف سے خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم پر مزید کارروائی، استغاثے کی طرف سے واردات کو رجسٹر کرنا اور تمام رپورٹوں کی چھان بین کو یقینی بنایا جانا چاہیئے۔
رپورٹ میں 29سفارشات پیش کی گئی ہیں، جِن میں افغان حکومت اور اُس کے بین الاقوامی ساجھے داروں سے اِس قانون پر عمل درآمد کے لیے کہا گیا ہے۔
رپورٹ سے ایک روز قبل کابل کے مشرق میں صوبہٴ لغمان میں سرکش عناصر نے اپنے دفتر جانے والی افغان امور ِٕخواتین کی ایک سینئر عہدے دار کو گولی مار کر ہلاک کردیا تھا۔ اُن کی پیشرو جولائی میں ہونے والے ایک بم حملے میں ہلاک ہوئی تھیں۔
منگل کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں اقوام متحدہ کے عہدے داروں نے کہا ہے کہ مجموعی طور پر اِس قانون پر عمل درآمد برائے نام ہورہا ہے۔ اُن کا یہ تخمینہ اکتوبر 2011ء سے ستمبر 2012ء کے دوران عہدے داروں سے مشاورت اور ملک بھر سے اکٹھے ہونے والے اعداد و شمار کی بنیاد پر لگایا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اب بھی تشدد کی کارروائیوں میں اضافہ جاری ہے، جِن میں خواتین کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔
گذشتہ 12 ماہ کے عرصے میں انسانی حقوق کے مبصرین اور مقامی حکام نے جو اعداد و شمار اکٹھے کیے ہیں اُن سے پتا چلتا ہے کہ سول سوسائٹی کی تنظیموں، حکومت اور بین الاقوامی عناصر نےخواتین کے خلاف رونما ہونے والی تشدد کی کارروائیوں کے بارے میں عام آدمی کو حوصلہ بخش آگہی فراہم کی ہے، جس کے باعث اُن میں ایک نئی امنگ اور ایک نیا ولولہ پیدا ہوا ہے۔
افغان حکومت نے اگست 2009ء میں خواتین کےخلاف تشدد کی کارستانیوں کے انسداد سے متعلق قانون بنایا۔ اس میں کم عمری کی شادی، زبردستی کا بیاہ، کسی جھگڑے کےتصفیے کے بدلے خاتون یا بچی کو حوالے کر دینا، خودسوزی، اور خواتین کے خلاف 20دیگر مجرمانہ حرکات، جن میں زنا بالجبر بھی شامل ہے۔ اس قانون میں اِن جرائم کے خلاف مجوزہ سزاؤں کی تفاصیل بھی دی گئی ہیں۔
مشن کی انسانی حقوق سے متعلق ڈائریکٹر، جورجیٹ گاگنون نے کہا ہے کہ پولیس کی طرف سے خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم پر مزید کارروائی، استغاثے کی طرف سے واردات کو رجسٹر کرنا اور تمام رپورٹوں کی چھان بین کو یقینی بنایا جانا چاہیئے۔
رپورٹ میں 29سفارشات پیش کی گئی ہیں، جِن میں افغان حکومت اور اُس کے بین الاقوامی ساجھے داروں سے اِس قانون پر عمل درآمد کے لیے کہا گیا ہے۔
رپورٹ سے ایک روز قبل کابل کے مشرق میں صوبہٴ لغمان میں سرکش عناصر نے اپنے دفتر جانے والی افغان امور ِٕخواتین کی ایک سینئر عہدے دار کو گولی مار کر ہلاک کردیا تھا۔ اُن کی پیشرو جولائی میں ہونے والے ایک بم حملے میں ہلاک ہوئی تھیں۔