اقوام متحدہ اور افغانستان میں ساتھی امدادی اداروں نے کہاہے کہ انہیں ان سینکڑوں افغان خاندانوں کی مدد کے لیے فوری طور پر فنڈز کی ضرورت ہے جو پڑوسی ملک پاکستان سے گرفتاری اور ملک بدری سے بچنے کے لیےروزانہ افغانستان واپس آرہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے امور سے متعلق رابطہ کار ادارے نے ایک بیان میں کہا کہ ، "افغانستان جانےوالوں میں سے 60 فیصد سے زیادہ بچے ہیں۔ "
بیان میں کہا گیا کہ ، "ان کی حالت مایوس کن ہے جن میں سے بہت سوں نے کئی دن تک سفر کیا ہے اور ان پر یہ واضح نہیں ہے کہ انہیں واپس کہاں جانا ہے ، اور وہ سرحد پر پھنس کر رہ گئے ہیں۔
اقوام متحدہ نے یہ بیان معروف سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اس کے ایک روز بعد جاری کیا جب اس کے کنٹری چیف ، ڈینیئل اینڈریس نے افغانستان اور پاکستان کی سرحدی گزرگاہ طورخم کا دورہ کیا تاکہ وہاں پہنچنے والے نئے خاندانوں سے ملاقات کریں اور صورت حال کا جائزہ لیں ۔
پاکستانی حکومت نے اکتوبر کے شروع میں قانونی دستاویز کے بغیر ملک میں رہنے والے سترہ لاکھ افغان شہریوں سمیت تمام غیر ملکیوں کو، یہ انتباہ کرتے ہوئے ملک چھو ڑنے کا حکم دیا تھا کہ جو کوئی یکم نومبر کے بعد ملک میں رہا اسے گرفتار کرلیا جائے گا اور اس کے اصل ملک واپس بھیج دیا جائے گا۔
افغانستان کی طالبان حکومت کے مطابق اس وقت سے اب تک دو لاکھ سےزیادہ افراد افغانستان واپس جا چکے ہیں اور اس تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے ۔ افغان شہری اپنے وطن واپس آنے کے لیے پاکستان کی جنوب مغربی چمن کی سرحد بھی استعمال کر رہے ہیں۔
طالبان نے واپس آنے والے خاندانوں کو فوری پناہ گاہ ، خوراک ،صحت کی دیکھ بھال اور دوسری سہولیات کی فراہمی کےلیے سرحد کی اپنی جانب عارضی کیمپ قائم کر دیے ہیں ۔
انٹر نیشنل ریڈ کراس کمیٹی نے منگل کو کہا کہ طورخم میں امداد کی سخت ضرورت ہے ، افغانستان میں کمیٹی کے سینیئر ایریا کوآرڈی نیٹر نصیب مشعل نے کہا کہ ،سینکڑوں خاندان ہر روز آ رہے ہیں اور ان کی تعداد میں صرف اضافہ ہی ہوگا ۔ اور اگلے چھ ماہ میں لوگوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہے گا ۔
انہوں نے کہا کہ،" ہماری صحت کی ٹیم بچوں سمیت بہت سے لوگو ں کے شدید زخموں کا علاج کر چکی ہے جو پہاڑوں کے طویل اور دشوار سفر کے بعد افغانستان پہنچے ہیں۔ " انہوں نے مزید کہا کہ نئے آنے والوں میں سے بہت سی خواتین اور لڑکیاں ہیں۔
انہوں نے انتباہ کیا کہ اب جب کہ موسم سرما قریب ہے ، انٹر نیشنل ریڈ کراس کمیٹی ان لوگوں کی بقا کے لیے سخت فکر مند ہے جو کھلے آسمانوں تلے خیموں میں سو رہے ہیں ، جب کہ درجہ حرارت مسلسل گر رہا ہےاور توقع ہے کہ دسمبر کے وسط میں سخت بارشیں شروع ہو جائیں گی۔
مشعل نے کہا کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مدد کے لیےبین الاقوامی برادری سے فوری طور پر فنڈنگ کی ضرورت ہے تاکہ کراسنگ کے علاقوں اور ان افغان صوبوں میں ہزاروں نئے آنے والوں کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے جہاں یہ خاندان آخر کار سکونت اختیار کریں گے۔
مشعل نے انتباہ کیا کہ کئی عشروں کے تنازعے، عدم استحکام اور اقتصادی بحران کے بعد، افغانستان ان خاندانوں کو ضم کرنے کی کوشش کرے گا ، جن میں سے بہت سوں نے کئی عشروں سے یہاں قیام نہیں کیا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ساٹھ لاکھ سے زیادہ اندرونی طور پر بے گھر افراد کی موجودہ آبادی کے ساتھ، پاکستان سے واپس آنے والے افغانوں کو تاریک مستقبل کا سامنا ہے۔
طالبان نے پاکستان کے بے دخلی کے منصوبے کی مذمت کی ہے اور اقوام متحدہ کی قیادت کے عالمی پناہ گزیں اداروں نے افغانستان میں پہلے ہی انسانی ہمدردی کے ایک سنگین بحران کا حوالہ دیتے ہوئے اسلام آباد پر بار بار بے دخلی معطل کرنے پر زور دیا ہے ۔
SEE ALSO: خواتین اور بچوں کو زبردستی افغانستان نہ بھیجا جائے: عالمی تنظیموں کی پاکستان سے اپیلپاکستان نے ملک میں غیر قانونی طور پر رہنے والے غیر ملکیوں کی پکڑ دھکڑ روکنے کی اپیلوں کو مسترد کر دیا ہے۔
پاکستان کی وزارت خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا ، کہ پالیسی بہت واضح ہے۔ جو افراد غیر قانونی ہیں، جن کے پاس قانونی دستاویزات نہیں ہیں، اور جو اپنے ویزوں کی مدت سےزیادہ قیام کر چکے ہیں انہیں ان کے ملکوں میں واپس بھیج دیاجائے گا۔ اس وقت پالیسی پر کوئی نظر ثانی نہیں ہو گی۔
جمعرات کو ایک ہفتہ وار نیوز کانفرنس میں انہوں نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ،" ہم نے اس منصوبے پر افغان عہدے داروں سے بات چیت کی ہے۔ ہم نے انہیں اس منصوبے کی تفصیلات اور اس کے پیچھے کارفرما سوچ سے آگاہ کیا ہے، کہ ہم ایسا کیوں کر رہے ہیں، اور ہم اسے کس طرح کریں گے۔ "
انہوں نے ایک بار پھر کہا کہ پاکستان میں مہاجرین کے طور پر رجسٹرڈ لگ بھگ 14 لاکھ افغان شہری اور قانونی حیثیت رکھنے والے مزید آٹھ لاکھ 80 ہزار افغان شہریوں کی پکڑ دھکڑ نہیں ہو گی ۔
پاکستان کے نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ دستاویزات کے بغیر ملک میں مقیم غیر ملکیوں کی بے دخلی کا حکم اس لیے دیا گیا ہے کہ ملک میں دہشت گرد حملوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس سال 24 خود کش حملوں میں سے 14 افغان شہریوں نے کیے تھے۔ 2023 میں عسکریت پسندوں کے تشدد میں سینکڑوں پاکستانی ہلاک ہوئے جن میں سے زیادہ تر سیکیورٹی فورسز کے اہل کار تھے۔
پاکستانی عہدے داروں کا موقف ہے کہ طالبان سے منسلک مفرور عسکریت پسند افغان سر زمین میں اپنے محفوظ ٹھکانوں سے سرحد پار حملوں کی منصوبہ بندی میں اضافہ کررہے ہیں۔طالبان عہدے دار ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
افغانستان میں 40 سال سے زیادہ عرصے کے تنازعات ،جن کا آغاز 1970 کی دہائی کے آخر میں سوویت حملے سے ہواتھا ، اور قدرتی آفات کے نتیجے میں لاکھوں شہریوں کو اس غربت زدہ ملک سے بھاگ کر پڑوسی ملکوں پاکستان اور ایران میں پناہ لینا پڑی تھی۔
ایرانی حکام نے بھی مبینہ طور پر گزشتہ دو ماہ میں ایک لاکھ 20 ہزار افغان شہریوں کو ان کے ملک واپس بھیجا ہے۔
اقوام متحدہ کے عہدے داروں کا اندازہ ہے کہ اگست 2021 میں جب سے طالبان نے کابل کا کنٹرول سنبھالا ہے ، چھ لاکھ سے زیادہ افغان شہری پاکستان میں پناہ لے چکے ہیں۔ اس سخت گیر گروپ کی اقتدار پر واپسی اس کے بعد ہوئی جب امریکہ اور نیٹو کے فوجیوں نے ملک میں لگ بھگ بیس سال تک رہنے کے بعد وہاں سے انخلا کیا۔
پاکستان آنے والے بہت سے نئے پناہ گزینوں کا کہنا ہے کہ وہ واپس جانے سے اس لیے ہچکچا رہے ہیں کہ انہیں امریکی قیادت کے غیر ملکی فوجیوں کے ساتھ اپنے تعلق کی وجہ سےطالبان کی جانب سے اپنے خلاف انتقامی کارروائی یا زیادتی کا خوف ہے۔