پاکستان سے افغٓانستان جانے والوں میں 60 فیصد بچے ہیں: اقوام متحدہ 

پاکستان سے افغانستان واپس جانے والے افغان پناہ گزین بچے طورخم بارڈر پر ٹرکوں پر سوار ہو کر پہنچے ہیں، فوٹو اے پی، یکم نومبر 2023

اقوام متحدہ اور افغانستان میں ساتھی امدادی اداروں نے کہاہے کہ انہیں ان سینکڑوں افغان خاندانوں کی مدد کے لیے فوری طور پر فنڈز کی ضرورت ہے جو پڑوسی ملک پاکستان سے گرفتاری اور ملک بدری سے بچنے کے لیےروزانہ افغانستان واپس آرہے ہیں۔

اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے امور سے متعلق رابطہ کار ادارے نے ایک بیان میں کہا کہ ، "افغانستان جانےوالوں میں سے 60 فیصد سے زیادہ بچے ہیں۔ "

بیان میں کہا گیا کہ ، "ان کی حالت مایوس کن ہے جن میں سے بہت سوں نے کئی دن تک سفر کیا ہے اور ان پر یہ واضح نہیں ہے کہ انہیں واپس کہاں جانا ہے ، اور وہ سرحد پر پھنس کر رہ گئے ہیں۔

اقوام متحدہ نے یہ بیان معروف سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اس کے ایک روز بعد جاری کیا جب اس کے کنٹری چیف ، ڈینیئل اینڈریس نے افغانستان اور پاکستان کی سرحدی گزرگاہ طورخم کا دورہ کیا تاکہ وہاں پہنچنے والے نئے خاندانوں سے ملاقات کریں اور صورت حال کا جائزہ لیں ۔

افغان پناہ گزین طورخم میں پاکستان افغان بارڈر کے قریب ایک پناہ گزین کیمپ میں فوٹو اے پی، 4 نومبر 2023

پاکستانی حکومت نے اکتوبر کے شروع میں قانونی دستاویز کے بغیر ملک میں رہنے والے سترہ لاکھ افغان شہریوں سمیت تمام غیر ملکیوں کو، یہ انتباہ کرتے ہوئے ملک چھو ڑنے کا حکم دیا تھا کہ جو کوئی یکم نومبر کے بعد ملک میں رہا اسے گرفتار کرلیا جائے گا اور اس کے اصل ملک واپس بھیج دیا جائے گا۔

افغانستان کی طالبان حکومت کے مطابق اس وقت سے اب تک دو لاکھ سےزیادہ افراد افغانستان واپس جا چکے ہیں اور اس تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے ۔ افغان شہری اپنے وطن واپس آنے کے لیے پاکستان کی جنوب مغربی چمن کی سرحد بھی استعمال کر رہے ہیں۔

افغان پناہ گزین بچے اپنے ساز و سامان کے ساتھ ٹرکوں پر سوار افغانستان واپسی کے سفر پر پاکستان افغانستان کی طورخم سرحد پر ، فوٹو اے پی یکم نومبر 2023

طالبان نے واپس آنے والے خاندانوں کو فوری پناہ گاہ ، خوراک ،صحت کی دیکھ بھال اور دوسری سہولیات کی فراہمی کےلیے سرحد کی اپنی جانب عارضی کیمپ قائم کر دیے ہیں ۔

انٹر نیشنل ریڈ کراس کمیٹی نے منگل کو کہا کہ طورخم میں امداد کی سخت ضرورت ہے ، افغانستان میں کمیٹی کے سینیئر ایریا کوآرڈی نیٹر نصیب مشعل نے کہا کہ ،سینکڑوں خاندان ہر روز آ رہے ہیں اور ان کی تعداد میں صرف اضافہ ہی ہوگا ۔ اور اگلے چھ ماہ میں لوگوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہے گا ۔

انہوں نے کہا کہ،" ہماری صحت کی ٹیم بچوں سمیت بہت سے لوگو ں کے شدید زخموں کا علاج کر چکی ہے جو پہاڑوں کے طویل اور دشوار سفر کے بعد افغانستان پہنچے ہیں۔ " انہوں نے مزید کہا کہ نئے آنے والوں میں سے بہت سی خواتین اور لڑکیاں ہیں۔

پاکستان سے افغانستان واپسی کے سفر پرطورخم بارڈر میں پھنسے افغان مہاجرین ایک عارضی کیمپ میں، فوٹو اے پی 2 نومبر 2023

انہوں نے انتباہ کیا کہ اب جب کہ موسم سرما قریب ہے ، انٹر نیشنل ریڈ کراس کمیٹی ان لوگوں کی بقا کے لیے سخت فکر مند ہے جو کھلے آسمانوں تلے خیموں میں سو رہے ہیں ، جب کہ درجہ حرارت مسلسل گر رہا ہےاور توقع ہے کہ دسمبر کے وسط میں سخت بارشیں شروع ہو جائیں گی۔

مشعل نے کہا کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مدد کے لیےبین الاقوامی برادری سے فوری طور پر فنڈنگ کی ضرورت ہے تاکہ کراسنگ کے علاقوں اور ان افغان صوبوں میں ہزاروں نئے آنے والوں کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے جہاں یہ خاندان آخر کار سکونت اختیار کریں گے۔

مشعل نے انتباہ کیا کہ کئی عشروں کے تنازعے، عدم استحکام اور اقتصادی بحران کے بعد، افغانستان ان خاندانوں کو ضم کرنے کی کوشش کرے گا ، جن میں سے بہت سوں نے کئی عشروں سے یہاں قیام نہیں کیا ہے ۔

طورخم بارڈر پر ایک پناہ گزین کیمپ میں پاکستان سےافغٓانستان واپس جانے والے کچھ افغان بچے سردی سے بچنے کی کوشش میں ، فوٹو اے پی 4 نومبر 2023

انہوں نے کہا کہ ساٹھ لاکھ سے زیادہ اندرونی طور پر بے گھر افراد کی موجودہ آبادی کے ساتھ، پاکستان سے واپس آنے والے افغانوں کو تاریک مستقبل کا سامنا ہے۔

طالبان نے پاکستان کے بے دخلی کے منصوبے کی مذمت کی ہے اور اقوام متحدہ کی قیادت کے عالمی پناہ گزیں اداروں نے افغانستان میں پہلے ہی انسانی ہمدردی کے ایک سنگین بحران کا حوالہ دیتے ہوئے اسلام آباد پر بار بار بے دخلی معطل کرنے پر زور دیا ہے ۔

SEE ALSO: خواتین اور بچوں کو زبردستی افغانستان نہ بھیجا جائے: عالمی تنظیموں کی پاکستان سے اپیل

پاکستان نے ملک میں غیر قانونی طور پر رہنے والے غیر ملکیوں کی پکڑ دھکڑ روکنے کی اپیلوں کو مسترد کر دیا ہے۔

پاکستان کی وزارت خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا ، کہ پالیسی بہت واضح ہے۔ جو افراد غیر قانونی ہیں، جن کے پاس قانونی دستاویزات نہیں ہیں، اور جو اپنے ویزوں کی مدت سےزیادہ قیام کر چکے ہیں انہیں ان کے ملکوں میں واپس بھیج دیاجائے گا۔ اس وقت پالیسی پر کوئی نظر ثانی نہیں ہو گی۔

جمعرات کو ایک ہفتہ وار نیوز کانفرنس میں انہوں نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ،" ہم نے اس منصوبے پر افغان عہدے داروں سے بات چیت کی ہے۔ ہم نے انہیں اس منصوبے کی تفصیلات اور اس کے پیچھے کارفرما سوچ سے آگاہ کیا ہے، کہ ہم ایسا کیوں کر رہے ہیں، اور ہم اسے کس طرح کریں گے۔ "

طورخم میں پاکستان افغانستان سرحد پر افغان پناہ گزین ، فوٹو اے پی 4 نومبر 2023

انہوں نے ایک بار پھر کہا کہ پاکستان میں مہاجرین کے طور پر رجسٹرڈ لگ بھگ 14 لاکھ افغان شہری اور قانونی حیثیت رکھنے والے مزید آٹھ لاکھ 80 ہزار افغان شہریوں کی پکڑ دھکڑ نہیں ہو گی ۔

پاکستان کے نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ دستاویزات کے بغیر ملک میں مقیم غیر ملکیوں کی بے دخلی کا حکم اس لیے دیا گیا ہے کہ ملک میں دہشت گرد حملوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس سال 24 خود کش حملوں میں سے 14 افغان شہریوں نے کیے تھے۔ 2023 میں عسکریت پسندوں کے تشدد میں سینکڑوں پاکستانی ہلاک ہوئے جن میں سے زیادہ تر سیکیورٹی فورسز کے اہل کار تھے۔

پاکستانی عہدے داروں کا موقف ہے کہ طالبان سے منسلک مفرور عسکریت پسند افغان سر زمین میں اپنے محفوظ ٹھکانوں سے سرحد پار حملوں کی منصوبہ بندی میں اضافہ کررہے ہیں۔طالبان عہدے دار ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

'کبھی افغانستان نہیں دیکھا، اب جائیں گے تو پتا لگے گا کیا کرنا ہے'


افغانستان میں 40 سال سے زیادہ عرصے کے تنازعات ،جن کا آغاز 1970 کی دہائی کے آخر میں سوویت حملے سے ہواتھا ، اور قدرتی آفات کے نتیجے میں لاکھوں شہریوں کو اس غربت زدہ ملک سے بھاگ کر پڑوسی ملکوں پاکستان اور ایران میں پناہ لینا پڑی تھی۔

ایرانی حکام نے بھی مبینہ طور پر گزشتہ دو ماہ میں ایک لاکھ 20 ہزار افغان شہریوں کو ان کے ملک واپس بھیجا ہے۔

اقوام متحدہ کے عہدے داروں کا اندازہ ہے کہ اگست 2021 میں جب سے طالبان نے کابل کا کنٹرول سنبھالا ہے ، چھ لاکھ سے زیادہ افغان شہری پاکستان میں پناہ لے چکے ہیں۔ اس سخت گیر گروپ کی اقتدار پر واپسی اس کے بعد ہوئی جب امریکہ اور نیٹو کے فوجیوں نے ملک میں لگ بھگ بیس سال تک رہنے کے بعد وہاں سے انخلا کیا۔

پاکستان آنے والے بہت سے نئے پناہ گزینوں کا کہنا ہے کہ وہ واپس جانے سے اس لیے ہچکچا رہے ہیں کہ انہیں امریکی قیادت کے غیر ملکی فوجیوں کے ساتھ اپنے تعلق کی وجہ سےطالبان کی جانب سے اپنے خلاف انتقامی کارروائی یا زیادتی کا خوف ہے۔