میانمار کی شیڈو سویلین انتظامیہ نے پیر کو ہیگ میں قائم، اقوام متحدہ کی اعلیٰ ترین عدالت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ روہنگیا اقلیت کی نسل کشی سے متعلق مقدمے کی سماعت میں میانمار کی فوجی حکومت کو اپنے ملک کی نمائندگی کرنے کی اجازت نہ دے ۔
میانمار کی فوج کی جانب سے 2017 میں پکڑ دھکڑ کی کارروائیوں کے دوران نسلی اقلیت روہنگیا کی نسل کشی سے متعلق مقدمے کی چار روزہ سماعت عالمی عدالت انصاف میں پیر کی سہ پہر شروع ہو رہی ہے جس میں یہ جائزہ لیا جائے گا کہ عدالت میں میانمار کی جانب سے نمائندگی کا حق کسے حاصل ہے۔
عالمی عدالت میں میانمار کے نمائندے اس بارے میں دلائل دیں گے کہ وہ ایسا کیوں سمجھتے ہیں کہ مسلم اقوام کے نمائندے کے طور ایک افریقی ملک گیمبیا کی جانب سے دائر کیے جانے والے اس مقدمے کو خارج کر دیا جائے۔
لیکن میانمار کی قومی اتحاد کی حکومت کے ارکان نے عدالت پر زور دیا کہ وہ فوجی حکمرانوں کے نمائندوں کو قبول نہ کرے۔
شیڈو اتحادی حکومت کے وزیر خارجہ زن مار آنگ نے کہا کہ "ہم نہیں سمجھتے کہ بین الاقوامی عدالت انصاف کو میانمار کی فوجی حکومت کو جمہوریہ یونین کی نمائندگی کے لیے اپنے سامنے پیش ہونے کی اجازت دینا چاہے گی۔ یہ روہنگیا کے ساتھ بہت بڑی ناانصافی ہو گی کہ فوج ہی نے ان کے ساتھ زیادتی کی ہو اور عدالت میں بھی اسی کی آواز ہو۔"
SEE ALSO: بنگلہ دیش: سیلابی ریلوں سے روہنگیا پناہ گزینوں کے کیمپوں میں تباہیمیانمار کی شیڈو انتظامیہ نے کہاہے کہ اس نے عدالت سے اس کیس پر میانمار کے ابتدائی اعتراضات ختم کے لیے رابطہ کیا ہے، لیکن یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا عالمی عدالت اتحادی انتظامیہ کو تسلیم کرے گی۔
میانمار کی شیڈو انتظامیہ کے نمائندوں میں متنوع گروپس کے ارکان شامل ہیں، جن میں منتخب قانون ساز بھی ہیں جنہیں فوج نے اقتدار پر قبضے کے بعد اپنی نشستیں سنبھالنے سے روک دیا تھا۔ شیڈو انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ ملک کی واحد قانونی حکومت ہے، لیکن ابھی تک کسی بھی غیر ملکی حکومت نے اس اتحادی گروپ کو تسلیم نہیں کیا۔
نیدرلینڈز کے شہر ہیگ میں واقع عالمی عدالت انصاف میں دائر کیا جانے والا یہ مقدمہ عالمی برادری میں اس وسیع تر جدوجہد کی عکاسی کرتا ہے کہ فوجی بغاوت کے بعد میانمار کے جائز حکمرانوں کے طور پر کس کو قبول کیا جائے۔
جنوب مشرقی ایشیا کے وزرائے خارجہ نے گزشتہ ہفتے جنوبی مشرقی ایشیا کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں میانمار کے وزیرخارجہ کو اپنے ملک کی نمائندگی کے لیے قبول نہیں کیا، تاہم اسے آن لائن اجلاس میں بطور مبصر شرکت کی اجازت دی گئی تھی۔
فوج نے 2017 میں ایک روہنگیا باغی گروپ کے حملے کے بعد ریاست رخائن کو باغیوں سے پاک کرنے کی مہم شروع کی تھی، جس کے نتیجے میں سات لاکھ سے زیادہ روہنگیا افراد کو اپنی جانیں بچانے کے لیے پڑوسی ملک بنگلہ دیش کی جانب فرار ہونا پڑا۔ جب کہ سیکیورٹی فورسز پر اس مہم کے دوران اجتماعی جنسی زیادتیوں، بڑے پیمانے پر قتل اور ہزاروں گھروں کو نذر آتش کرنے کے الزام عائد کیے گئے۔
Your browser doesn’t support HTML5
گیمیبا کی نمائندگی کرنے والے وکلا نے عالمی عدالت انصاف کے ججوں کو نقشوں، سیٹلائٹ سے حاصل کردہ تصاویر اور فوجی مہم جوئی کے گرافکس دکھا کر روہنگیا اقلیت کی نسل کشی کے اپنے الزامات کو ثابت کرنے کی کوشش کی،جس پر عالمی عدالت نے میانمار کو یہ حکم دیا کہ وہ روہنگیا اقلیت کی نسل کشی روکنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرے۔
اس عبوری حکم کا مقصد اس عرصے کے دوران جب تک عدالت اپنا فیصلہ نہ سنا دے،روہنگیا اقلیت کو تحفظ فراہم کرنا تھا۔عالمی عدالت کے فیصلوں میں عموماً کئی برس لگ جاتے ہیں۔
ایک جمہوریت پسند شخصیت کے طور پر شہرت رکھنے والی میانمار کی راہنما آنگ ساں سوچی نے 2019 میں عالمی عدالت میں سماعتوں کے دوران اپنے ملک کی نمائندگی کی تھی۔ مگر اب فوجی بغاوت کے بعد سے وہ اپنے ملک میں قید ہیں اور ان کے خلاف مقدمات چل رہے ہیں۔
گزشتہ سال میانمار میں اقتدار پر فوج کے قبضے کے خلاف بڑے پیمانے پر پرامن احتجاجی مظاہرے ہوئے اور سول نافرمانی کی تحریک چلی، جسے سیکیورٹی فورسز نے طاقت کے اندھا دھند استعمال کے ذریعے دبا دیا۔ سیاسی قیدیوں کی امداد سے متعلق ایک تنظیم کے مطابق فوج کے قبضے کے بعد سے اب تک میانمار میں تقربیاً 1500 شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔
گلوبل جسٹس سینٹر کی صدر، اکیلا رادھا کرشنن نے کہا ہے کہ بین الاقوامی عدالت انصاف کی سماعت، میانمار میں نہ صرف روہنگیا بلکہ فوج کے ہاتھوں نقصان اٹھانے والے تمام لوگوں سے متعلق احتساب کی بنیاد رکھ رہی ہے ۔"
بین الاقوامی عدالت انصاف، بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے ریاستی ذمہ داری پر فیصلہ کرتی ہے۔ تاہم اس کا ہیگ میں ہی قائم بین الاقوامی فوجداری عدالت سے تعلق نہیں ہے۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت مظالم پر افراد کو جوابدہ ٹھہراتی ہے۔
آئی سی سی کے وکلا ان روہنگیا شہریوں کے خلاف جرائم کی تحقیقات کر رہے ہیں جنہیں بنگلہ دیش فرار ہونے پر مجبور ہونا پڑا تھا، لیکن ابھی تک اس سلسلے میں کوئی فرد جرم عائد نہیں کی گئی ہے۔
(اس رپورٹ کا مواد ایسوسی ایٹڈپریس سے لیا گیا ہے)