براہیمی پڑوسی ملک لبنان کا دورہ مکمل کرکے اتوار کی شب دمشق پہنچے تھے جہاں انہوں نے پیر کو صدر اسد سے ملاقات کی۔
واشنگٹن —
شام کے لیے اقوامِ متحدہ اور عرب لیگ کے نمائندہ خصوصی لخدار براہیمی نے 21 ماہ سے جاری خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے کی جانے والی بین الاقوامی کوششوں کے سلسلے میں شام کے صدر بشار الاسد سے ملاقات کی ہے۔
براہیمی پڑوسی ملک لبنان کا دورہ مکمل کرکے اتوار کی شب دمشق پہنچے تھے جہاں انہوں نے پیر کو صدر اسد سے ملاقات کی۔
دونوں رہنمائوں کے درمیان یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب گزشتہ روز شامی حزبِ اختلاف نے سرکاری افواج کی جانب سے ایک بیکری پر کی جانے والی بمباری کے نتیجے میں 60 افراد کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا۔
شامی حزبِ اختلاف کا کہنا ہے کہ فضائی حملہ اتوار کو حما صوبے کے ایک قصبے 'حلفایا' میں کیا گیا جو باغیوں کے زیرِ قبضہ ہے۔ اگر ہلاکتوں کی آزاد ذرائع سے تصدیق ہوجاتی ہے تو گزشتہ 21 ماہ سے جاری اس محاذ آرائی کے دوران میں کسی ایک پرتشدد واقعے میں ہلاکتوں کی یہ سب سے بڑی تعداد ہوگی۔
حزبِ اختلاف کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں میں مزید اضافے کا خطرہ ہے کیوں کہ بمباری سے زخمی ہونے والوں میں سے لگ بھگ 50 افراد کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔
تاحال یہ واضح نہیں ہوسکا ہے کہ جس ایک منزلہ عمارت پر حکومتی فوجی طیاروں نے بم گرائے، وہاں واقعی بیکری قائم تھی یا نہیں۔
حملے کے بعد انٹرنیٹ پر جاری کی جانے والی ایک ویڈیو میں لوگوں کو بمباری سے تباہ ہونے والی عمارت کے ملبے تلے دبے افراد کو نکالنے کے لیے بھاگ دوڑ کرتے دکھایا گیا ہے جن میں کم از کم ایک خاتون بھی شامل ہیں۔ ویڈیو میں متاثرہ عمارت کے آس پاس اور گلی میں خون سے لت پت لاشیں پڑی دکھائی دے رہی ہیں۔
شامی حزبِ اختلاف کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ سرکاری افواج نے صوبہ حلب اور دمشق کے مشرقی مضافاتی علاقوں پر بھی فضائی بمباری کی ہے جہاں ان دنوں صدر اسد کی حامی افواج باغیوں کے ساتھ لڑائی میں مصروف ہیں۔
دریں اثنا شام کے وزیرِ اطلاعات عمران الزوبی نے دمشق میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی حکومت ملک میں جاری بحران کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر آمادہ ہے۔
لیکن ساتھ ہی انہوں نے باغیوں اور ان کے حامیوں کو خبردار کیا ہے کہ مذاکرات کے لیے "وقت نکلتا جارہا ہے"۔
واضح رہے کہ صدر اسد کی حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کرنے والے باغی جنگجو اور بیرونِ ملک قائم شامی حزبِ اختلاف کی تنظیمیں حکومت کےساتھ مذاکرات سے انکاری رہے ہیں اور گزشتہ 12 سال سے برسرِ اقتدار صدر اسد سے فوری اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔
صدر اسد کے اقتدار کے خلاف تحریک گزشتہ سال کے اوائل میں شروع ہوئی تھی جس کے دوران میں اب تک 40 ہزار سے زائد افراد مارے جاچکےہیں۔
براہیمی پڑوسی ملک لبنان کا دورہ مکمل کرکے اتوار کی شب دمشق پہنچے تھے جہاں انہوں نے پیر کو صدر اسد سے ملاقات کی۔
دونوں رہنمائوں کے درمیان یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب گزشتہ روز شامی حزبِ اختلاف نے سرکاری افواج کی جانب سے ایک بیکری پر کی جانے والی بمباری کے نتیجے میں 60 افراد کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا۔
شامی حزبِ اختلاف کا کہنا ہے کہ فضائی حملہ اتوار کو حما صوبے کے ایک قصبے 'حلفایا' میں کیا گیا جو باغیوں کے زیرِ قبضہ ہے۔ اگر ہلاکتوں کی آزاد ذرائع سے تصدیق ہوجاتی ہے تو گزشتہ 21 ماہ سے جاری اس محاذ آرائی کے دوران میں کسی ایک پرتشدد واقعے میں ہلاکتوں کی یہ سب سے بڑی تعداد ہوگی۔
حزبِ اختلاف کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں میں مزید اضافے کا خطرہ ہے کیوں کہ بمباری سے زخمی ہونے والوں میں سے لگ بھگ 50 افراد کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔
تاحال یہ واضح نہیں ہوسکا ہے کہ جس ایک منزلہ عمارت پر حکومتی فوجی طیاروں نے بم گرائے، وہاں واقعی بیکری قائم تھی یا نہیں۔
حملے کے بعد انٹرنیٹ پر جاری کی جانے والی ایک ویڈیو میں لوگوں کو بمباری سے تباہ ہونے والی عمارت کے ملبے تلے دبے افراد کو نکالنے کے لیے بھاگ دوڑ کرتے دکھایا گیا ہے جن میں کم از کم ایک خاتون بھی شامل ہیں۔ ویڈیو میں متاثرہ عمارت کے آس پاس اور گلی میں خون سے لت پت لاشیں پڑی دکھائی دے رہی ہیں۔
شامی حزبِ اختلاف کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ سرکاری افواج نے صوبہ حلب اور دمشق کے مشرقی مضافاتی علاقوں پر بھی فضائی بمباری کی ہے جہاں ان دنوں صدر اسد کی حامی افواج باغیوں کے ساتھ لڑائی میں مصروف ہیں۔
دریں اثنا شام کے وزیرِ اطلاعات عمران الزوبی نے دمشق میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی حکومت ملک میں جاری بحران کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر آمادہ ہے۔
لیکن ساتھ ہی انہوں نے باغیوں اور ان کے حامیوں کو خبردار کیا ہے کہ مذاکرات کے لیے "وقت نکلتا جارہا ہے"۔
واضح رہے کہ صدر اسد کی حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کرنے والے باغی جنگجو اور بیرونِ ملک قائم شامی حزبِ اختلاف کی تنظیمیں حکومت کےساتھ مذاکرات سے انکاری رہے ہیں اور گزشتہ 12 سال سے برسرِ اقتدار صدر اسد سے فوری اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔
صدر اسد کے اقتدار کے خلاف تحریک گزشتہ سال کے اوائل میں شروع ہوئی تھی جس کے دوران میں اب تک 40 ہزار سے زائد افراد مارے جاچکےہیں۔