اقوام متحدہ سے منسلک انسانی حقوق کے ماہرین نے ایک سعودی قبیلے کےان تین افراد کو سزائے موت کےفیصلے کی مذمت کی ہے جنہوں نے رپورٹس کے مطابق بحیرہ احمر کے ایک بڑے شہر نیوم کی تعمیر کے سلسلے میں علاقے سے لوگوں کی جبری بے دخلی کے خلاف مزاحمت کی تھی ۔
الحويطات نامی قبیلے کے تین ارکان شمال مغربی سعودی عرب کے صحرائی علاقے میں آباد ہیں جہاں سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے منصوبے کے تحت 500 ارب ڈالر کی لاگت سے میگاسٹی زیر تعمیر ہے۔
عالمی ادارے کےایک درجن سے زیادہ آزاد حیثیت میں کام کرنے والے ماہرین حقوق نے خبردار کیا ہے کہ ان تین افراد کو جلد پھانسی دیے جانے کا سامنا ہے۔
ایک بیان میں انسانی حقوق کے علمبرداروں نے کہا ہے کہ ان تین افراد کو دہشت گردی کے الزامات عائد کر کے گرفتار کیا ہے جب کہ انہیں مبینہ طور پر "نیوم" پروجیکٹ کے نام پر جبری بے دخلی اور "دی لائن" نامی 170 کلومیٹر پر محیط ایک جدید شہر کی تعمیر کے خلاف مزاحمت کرنے پر حراست میں لیا گیا تھا۔
SEE ALSO: سعودی خاتون کو حکومت مخالف ٹویٹس پر 34 برس قید کی سزاخبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ماہرین حقوق نے کہا کہ تینوں افراد، شدلی احمد محمود ابو تقیقہ الحویتی، ابراہیم صالح احمد ابو خلیل الحویتی اور عطا اللہ موسی محمد الحویتی کو مبینہ طور پر گزشتہ 5 اگست کو موت کی سزا سنائی گئی تھی اور ان کی سزا کو 23 جنوری کی اپیل میں برقرار رکھا گیا تھا۔
ماہرین نےکا کہنا ہے کہ بین الاقوامی قانون کے تحت جن ریاستوں نے ابھی تک سزائے موت کو ختم نہیں کیا ہے، وہ اسے صرف "انتہائی سنگین جرائم" کے ارتکاب کی صورت میں نافذ کر سکتے ہیں، جس میں جان بوجھ کر قتل جیسے جرائم شامل ہیں۔
ماہرین نے کہا وہ یہ نہیں سمجھتے کہ یہ کیس بین الااقوامی شرائط کو پورا کرتی ہیں۔
بیان کے مطابق الحويطات قبیلے کے تین دیگر افراد کو بھی 27 سے 50 سال کے درمیان قید کی سزا سنائی گئی۔
خبر کے مطابق انسانی حقوق کے ماہرین نےاس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ تمام چھ افراد پر 2017 کے انسداد دہشت گردی کے ایک "حد سے زیادہ مبہم" قانون کے تحت الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
SEE ALSO: امریکہ کے لیے آزادیٴ اظہار پر کوئی بھی پابندی ہمیشہ باعثِ تشویش رہی ہے: بلنکنماہرین نے سعودی حکام سے ان الزامات کی تحقیقات کرنے کا مطالبہ بھی کیا جن میں کہا گیا تھا کہ حراست میں لیے گئے کچھ افراد کو اعتراف جرم کرانے اور ان کی سزاؤں پر نظرثانی کے لیے تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ "کوئی بھی بیان جو تشدد کے نتیجے میں دیا گیا ہو کسی بھی کارروائی میں ناقابل قبول ہے۔"
خیال رہے کہ حقوق کے ماہرین کا تقرر اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی طرف سے کیا جاتا ہے لیکن وہ اقوام متحدہ کی جانب سے بات نہیں کرتے ہیں۔
(اس خبر میں شامل معلومات اے ایف پی خبر رساں ادارے سے لی گئی ہیں)