امریکہ کے وفاقی وکیل استغاثہ نے ایک سعودی شخص پر سعودی ناقدین کو ہراساں کرنے کے لیے جعلی انسٹاگرام اکاؤنٹ کے استعمال سے متعلق وفاقی حکام سے جھوٹ بولنے کا الزام عائد کیا ہے۔
بروکلین کی وفاقی عدالت میں دائر کی گئی ایک شکایت کے مطابق سعودی شخص نے جن ناقدین کو ہراساں کیا ان میں زیادہ تر ایسی خواتین ہیں جو امریکا اور کینیڈا میں مقیم ہیں۔
ہدف بننے والی دانہ المیوف نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ان کے خلاف اس مہم کا آغاز ایک پیغام کے ساتھ ہوا جو دانہ المیوف کے فون پر ایک گمنام انسٹاگرام اکاؤنٹ سے بھیجا گیا۔ اس پیغام میں دانہ کو ان کے خلاف سعودی حکومت کی حمایت کرنے والی ایک ماڈل کی جانب سے دائر کردہ پانچ ملین ڈالر کے مقدے میں مدد کی پیش کش کی گئی۔
اس کے لیے پر اسرار پیغام رساں نے کہا کہ دانہ کو اس سے ذاتی طور پر ملنا ہو گا۔
دانہ کو یہ پیغام دسمبر 2019 میں موصول ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب ایک سال قبل استنبول میں سعودی قونصل خانے میں امریکہ میں مقیم ممتاز سعودی صحافی جمال خشوگی کو قتل کر دیا گیا تھا۔ دانہ لمیوف کو اندیشہ تھا کہ کہیں اس کو بھی نہ اغوا کر لیا جائے اور دوسروں کی طرح انہیں سعودی عرب واپس لے جایا جائے ۔
بالآخر دانہ نے پر اسرار شخص کو جواب دیا: "میں کسی ایسے شخص سے نہیں مل سکتی جسے میں نہیں جانتی ۔خاص طور پر ایسے وقت میں جب لوگوں کو اغوا اور قتل کیا جارہا ہے۔
امریکی وفاقی استغاثہ نے پیغامات بھیجنے والے 42 سالہ ابراہیم الحسین کو گرفتار کر کے اس پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ ا س نے وفاقی حکام سے جعلی اکاؤنٹ کا استعمال کرنے کے معاملے میں جھوٹ بولا ۔
وفاقی تفتیشی ادارے ایف بی آئی کے ترجمان نے، اے پی کے مطابق، ان دفعات پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے ۔ دوسری طرف ابراہیم الحسین کے وکیل نے بھی اپنا موقف دینے کی متعدد درخواستوں کا جواب نہیں دیا اور نہ ہی واشنگٹن میں سعودی سفارت خانے نے اس بارے میں ابھی تک کچھ کہا ہے۔
بروکلین کی وفاقی عدالت میں گزشتہ ماہ دائر کی گئی شکایت امریکہ میں سعودی مخالفین اور ان کے رشتہ داروں کو نشانہ بنانے والی آن لائن ہراساں کرنے کی مہم کی وسیع تر تحقیقات کی طرف اشارہ کرتی ہے -
ناقدین کے خلاف چلائی جانے والی یہ مہم اس رجحان کا حصہ ہے جس کے ذریعہ مختلف مطلق العنان حکومتیں حالیہ برسوں میں اپنے خلاف نقادوں کو دبانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اس رجحان نے امریکی حکام کو خوف زدہ کر دیا ہے۔
مثال کے طور پر، رواں سال محکمہ انصاف نے چینی حکومت کی جانب سے کام کرنے والے کارکنوں کی طرف سے امریکہ میں منتشر افراد کا پیچھا کرنے، ہراساں کرنے اور ان کی نگرانی کرنے کی سازش کا انکشاف کیا تھا۔
سعودی شخص کے خلاف شکایت ایسے وقت سامنے آئی ہے جب سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اپنے آپ کو ایک آزاد خیال اصلاح پسند کے طور پر ہیش کر رہے ہیں جبکہ انہوں نے سعودی مملکت اور بیرون ملک مخالفو ں کی آواز دبا رہے ہیں۔
سعودی حکومت ماضی میں اصرار کرتی رہی ہے کہ اس کے ناقدین سعودی عرب میں تشدد کو بھڑکاتے ہیں اور وہ سعودی مملکت کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔
صدر جو بائیڈن نے گزشتہ ہفتے سعودی عرب میں ایک سفارتی سربراہی اجلاس میں ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ ملاقات کی اور ان کے ساتھ خوشگوار انداز میں مٹھی سے مٹھی ملا کر ملاقات کا آغاز کیا تھا۔
صدر کی اس ملاقات کی تصویر کے منظر کے بعدان کے ساتھی ڈیموکریٹس اور حقوق کے گروپوں کی طرف سے بائیڈن کو تنقید کا سامنا کر نا پڑا کیونکہ اس سے قبل صدر بائیڈن نے سعودی عربپر سخت تنقید کی تھی ۔ اس سے قبل امریکی انٹیلی جنس کے اداروں نے رپورٹ دی تھی کہ جمال خشوگی کے قتل میں شہزادہ محمد بن سلمان کا کردار ہے۔
بائیڈن نے کہا کہ انہوں نے خشوگی کے "اشتعال انگیز" قتل کے معاملے کو شہزادہ محمد کے ساتھ اٹھایا ۔ بائیڈن نےبغیر لگی لپٹی کے انسانی حقوق کے مسائل کے بارے میں صاف صاف اور براہ راست بات کی۔
بائیڈن نے سعودی عرب کی طرف سے بیرون ملک منحرف افراد کو نشانہ بنانے کی کوششوں کے بارے میں کہا ، "اگر ایسا کچھ دوبارہ ہوتا ہے تو ، "انہیں امریکہ کی طرف سےسخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔"
واشنگٹن میں قائم انسانی حقوق کے نگراں ادارے، 'ڈیموکریسی فار دی عرب ورلڈ ناؤ' کے خلییج میں ریسرچ ڈائریکٹر عبداللہ الاؤد اس مسئلے پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ابرہیم الحسین کا کیس ایک بہت بڑے مسئلے کی چھوٹی سے کڑی ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ انہیں بھی ابراہیم الحسین نے ہراساں کیا حالانکہ شکایت میں ان کا نام نہیں ہے۔ "یہ سعودی حکومت کی طرف سے باہر بیٹھے لوگوں تک پہنچنے کی ایک بہت بڑی مہم ہے۔"
الحسین امریکی ریاست مسیسیپی کی دو یونیورسٹیوں میں گریجویٹ طالب علم تھا۔ لیکن آن لائن ان کے اکاونٹ میں وہ اپنی شناخت ، ایف بی آئی کے مطابق "samar16490@" کے طور پر کی جاتی تھی۔
اس اکاؤنٹ سے ابراہیم نے انسٹاگرام پر نوجوان خواتین کی بے رحمی سے توہین کی اور انہیں دھمکیاں دی تھیں جس کا واضح مقصد سعودی حکومت کی مدد کرنا تھا۔
جنوری 2019 اور اگست 2020 کے درمیان، اس نے مبینہ طور پر سعودی حکومت کے ایک ملازم سے مستقل رابطہ رکھا جو شاہی دربار کے ایک اہلکار کو اطلاعات دیتا تھا۔
نیویارک میں دائر کی گئی درخواست میں استغاثہ نے کہا کہ ابرہیم الحسین نے خشوگی کی موت سے ایک سال قبل اس کی ٹویٹر پوسٹس کے اسکرین شاٹس لیے تھے اور اس سال اپنے فون پر خشوگی کی تصاویر رکھی تھیں، جس سے الحسین کا سعودی مخالفین کے متعلق جنونی حد تک متوجہ کا پتا چلتا ہے۔
ابراہیم کی مہم کا نشانہ بننے والے متاثرین نے معمول کے مطابق اپنے فون چیک کرتے تھے تاکہ نئےحملوں کے متعلق جان سکیں۔ سعودی حکومت پر تنقید کرنے والی ایک خاتون نے کہا کہ ابراہیم کی وارننگ ایک طاقتور مہم کا حصہ تھی جسے سوشل میڈیا ٹرولز نے شروع کیا تھا۔
سعودی کارکن المیوف نے مبینہ طور پر اے پی کو بتایا ہے کہ ابراہیم نےان سے کہا تھا کہ ایم بی ایس، یعنی ولی عہد ، ان کو صفحہ ہستی سے مٹا دے گا۔
ابراہیم نے مبینہ طور پر المیوف کو مملکت میں قید معروف سعودی خواتین کی طرح عبرت کے بارے میں دھمکی دی تھی، اور اس نے اپنے پیغامات میں نازیبا الفاظ استعمال کیے۔
المیوف نیویارک سے ایک مشہور یوٹیوب شو کی میزبانی کرتی ہیں جس میں سعودی عرب سے متعلقہ حالیہ واقعات اور ممتاز عہدیداروں پر تنقید کی جاتی ہے۔
خواتین کے حقوق کی ایک اور نمایاں سعودی کارکن ماودی الجوہانی جس نے امریکہ میں پناہ کی درخواست دے رکھی تھی کہتی ہیں کہ انہیں بھی یہ محسوس ہوا کہ ابراہیم ان کو اعتماد میں لے کر ان سے رو برو ملاقات کرنا چاہتا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ وہ اس وقت انتہائی پریشان ہوگئیں جب ابراہیم نے سن 2020 میں ان سے اپنے جعلی انسٹاگرام اکاونٹ سے رابطہ کیااور اس اکاونٹ پر ان کے خاندان کے ایک فرد کی پراسرار سی تصویر موجود تھی۔
(خبر کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے)