امریکہ کے شہر نیویارک میں اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کا چھہترواں اجلاس جاری ہے جس میں دنیا کے 100 سے زائد ملکوں کے راہنما شریک ہیں۔
کئی اہم شخصیات جن میں فرانسیسی صدر ایمینئول میخواں، چینی صدر ژی جن پنگ، روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور ایران کے نو منتخب صدر ابراہیم رئیسی شامل ہیں، اس اجلاس میں ذاتی طور پر شریک نہیں ہیں۔
جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرنے والا پہلا ملک ہمیشہ کی طرح برازیل رہا۔ بیس ماہ سے زائد عرصے سے دنیا کرونا وبا کی لپیٹ میں ہے اور وبا کا خاتمہ اور دنیا کے تمام ملکوں میں ویکسین کی دستیابی ممکن بنانا اقوام متحدہ کے ایجنڈے میں سر فہرست ہے۔
مگر کئی لوگ حیران ضرور ہوں گے کہ جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرنے والا پہلا ملک وہ ہے جس کا صدر ژائیر بولسنارو گزشتہ سال خود کووڈ میں مبتلا ہوا، باوجود اس کے وہ ابھی تک ویکسین لینے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔
خبر رساں ادارے، رائٹرز کی مطابق نیویارک میں بولسنارو کے ہمراہ تشریف لانے والے برازیل کے وزیر صحت، عام تشخیص کے دوران کرونا پازیٹیو پائے گئے، جو تاحال نیویارک میں قرنطینہ میں ہیں۔
برازیل واپس پہنچنے پر صدر بالسنورو کے بیٹے اور کانگریس مین ایدوآردو بالسنورو سمیت ملک کی وزیر زراعت اور سالیسٹر جنرل کے بھی کرونا ٹیسٹ مثبت آئے ہیں۔
چھہترویں جنرل اسمبلی اجلاس سے قبل اقوام متحدہ نے 'نظام احترام' متعارف کرایا تھا جس کے تحت اجلاس کے تمام شرکاء سے توقع کی گئی تھی کہ وہ دوسرے مندوبین کے احترام اور جنرل اسمبلی اجلاس کو وائرس کے حوالے سے 'سپر سپریڈر تقریب' بننے سے روکنے میں مدد دینے کے لیے کرونا ویکسین لگوائے بغیر شرکت نہیں کریں گے۔ مگر برازیل کے صدر اسے خاطر میں نہ لاتے ہوئے ویکسین کے بغیر ہی جنرل اسمبلی سے خطاب کے لئے پہنچ گئے۔
حکومت برازیل کے کرونا وبا سے نمٹنے کے غیر سنجیدہ رویے اور ویکسین کو اہمیت نہ دیتے ہوئے اسے خود نہ لگوانے والے صدر کا اسمبلی سے سب سے پہلے خطاب کرنا شاید کئی لوگوں کی حیرانی کا باعث ہوگا۔ مگر درحقیقت یہ روایت نئی نہیں، کئی دہائیاں پرانی ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ یہ سلسلہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی ابتدا سے ہی جاری ہے تو غلط نہ ہوگا۔
نہ تو برازیل حروف تہجی کے لحاظ سے دنیا کا پہلا ملک ہے، نہ ہی اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا سربراہ یا مستقل رکن، پھر بھی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے والا پہلا ملک کیوں؟
اس سوال کے جواب میں اب سے کئی سال پہلے 'نیشنل پبلک ریڈیو' کو انٹرویو دیتے ہوئے اقوام متحدہ کے اس وقت کے چیف آف پروٹوکول ڈیسمنڈ پارکر نے بتایا تھا کہ دراصل جنگ عظیم دوم کے بعد 1946ء میں جب اقوام متحدہ کا پہلا جنرل اسمبلی اجلاس ہوا اور اس کے بعد سرد جنگ کے دوران بھی دنیا کی تمام بڑی طاقتیں پہلے خطاب کرنے سے کتراتی تھیں تو برازیل رضاکارانہ طور پر آگے بڑھ کے خطاب کرتا تھا۔ اور اس طرح آہستہ آہستہ یہ ایک روایت ہی بن گئی۔
برازیل کے بعد اقوام متحدہ کے اجلاس سے میزبان ملک امریکہ خطاب کرتا ہے جس کے بعد کی ترتیب ہر سال تبدیل ہوتی رہتی ہے۔
جنرل اسمبلی اجلاس میں جمعے کے روز کی کارروائی
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں آج جمعہ کو آٹھ خواتین، تین نائب صدور اور پانچ وزرائے اعظم خطاب کر رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ کی نمائندہ مارگریٹ بشیر کے مطابق اس موقعے پر خطاب کرتے ہوئے تنزانیہ کی پہلی خاتون صدر سمعیہ سولوہو حسن نے کہا کہ ہماری کی گئی محنت پر کرونا وبا کی وجہ سے پانی پھر رہا ہے۔
سلوواکیا کی صدر زوزانہ کیپوٹووا نے کہا کہ ہم اپنی بچیوں، خواتین اور اقلیتوں کو بچائے بغیر اس دنیا کو نہیں بچا سکتے۔
اس سے ایک روز قبل اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوئٹرس نے اجلاس کی سائڈ لائنز ہر بات کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں ہر روز کروڑوں لوگ بھوکے سوتے ہیں، بچے بھوک سے بلک رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کرونا وبا نے صورتحال مزید مشکل بنا دی ہے۔ اس کی وجہ سے معیشتیں نقصان میں ہیں، عدم مساوات بڑھا ہے اور کروڑوں لوگ مزید غربت میں دھنس گئے ہیں۔
اقوام متحدہ کے پائدار ترقی کے 17 اہداف میں 'بھوک کا خاتمہ' سرفہرست ہے۔