قرآن کی بے حرمتی: انسانی حقوق کونسل میں مذہبی منافرت کے خلاف پاکستان کی قرارداد منظور

اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے سوئیڈن میں قرآن نذرِ آتش کرنے کے تناظر میں مذہبی منافرت کے خلاف پاکستان کی پیش کردہ قرار داد منظور کرلی ہے۔

بدھ کو جنیوا میں اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں پیش کردہ اس قرارداد کی امریکہ اور یورپین یونین نے مخالفت کی۔ جن کا مؤقف تھا کہ انسانی حقوق کونسل میں پیش کردہ قرارداد انسانی حقوق اور آزادئ اظہار پر ان کے نظریہ سے متصادم ہے۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق قرارداد کے حق میں 28 ووٹ آئے جب کہ 12 ممالک نے اس کی مخالفت کی۔ سات ملکوں نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔

سوئیڈن میں گزشتہ ماہ قرآن نذرآتش کرنے کے واقعے پر پاکستان کی جانب سے اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کونسل میں قرارداد پیش کی گئی تھی۔

پاکستان کا مطالبہ تھا کہ اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ اس معاملے پر رپورٹ شائع کریں اور ریاستوں سے ایسے قوانین پر نظرثانی کرنے اور اس خلا کو پر کرنے کا مطالبہ کریں جو مذہبی منافرت پر کارروائیوں اور قانونی کارروائیوں میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔

SEE ALSO: قرآن کی بے حرمتی؛ کیا ترکی کی برہمی سوئیڈن کی نیٹو میں شمولیت کے آڑے آئے گی؟

واضح رہے کہ منگل کو اقوامِ متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق نے حال ہی میں سوئیڈن میں قرآن نذرِ آتش کرنے کے واقعے پرہنگامی بحث کا آغاز کیا تھا اور نفرت انگیزی اور اشتعال انگیزی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔

اقوامِ متحدہ کے ہیومن رائٹس چیف والکر ٹرک نے بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا تھا کہ بظاہر قرآن نذرِ آتش کرنے جیسے واقعات اشتعال انگیزی اور تقسیم پیدا کرنے کی سوچی سمجھی کوشش لگتے ہیں۔

اس اجلاس میں وڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے قرآن کی ارادۃً بے حرمتی کی مذمت کی تھی اور بے حرمتی کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیاتھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ وہ آزادئ اظہار کے بنیادی حق پر یقین رکھتے ہیں، جیسے آزادئِ اظہار ناگزیر ہے ویسے ہی نفرت پر مبنی تقریر بھی ناقابلِ دفاع ہونی چاہئیے۔

سوئیڈن میں گزشتہ ماہ عید الاضحیٰ کے موقع پر ایک عراقی تارکِ وطن نے مسجد کے باہر قرآن کو نذرآتش کیا تھا جس پر مسلم ممالک کی جانب سے سخت ردِ عمل دیا گیا تھا۔ قرآن کی بے حرمتی پر کئی ممالک میں احتجاج کیا گیا تھا اور سوئیڈن سے سفارتی اور تجارتی بائیکاٹ کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

اس خبر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔