اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے مہاجرین نے 2020 کے عالمی رجحانات کے بارے میں اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ جنگ، تشدد، ظلم و استبداد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے تقریباً 8 کروڑ 24 لاکھ افراد کو جبری طور پر بے گھر ہونا پڑا۔ یہ ریکارڈ تعداد 2019 کے مقابلے میں 4 فی صد زیادہ ہے۔
گزشتہ 9 سال سے مسلسل اس تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ کرونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن اور سرحدوں کی بندش بھی لوگوں کو مجبوراً اپنا گھر چھوڑنے سے نہیں روک سکی، کیونکہ جنگ اور مظالم کی وجہ سے وہ اپنی جان بچانے کے لیے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہو گئے تھے۔
جبری طور پر بے گھر ہونے والے تقریباً 8 کروڑ 20 لاکھ افراد میں سے 2 کروڑ 64 لاکھ وہ پناہ گزین ہیں جنہوں نے اپنا ملک چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں پناہ لے رکھی ہے۔ جب کہ باقی ماندہ کروڑوں افراد لڑائیوں اور تشدد کی وجہ سے اپنے ہی ملک کے اندر بے گھر ہو کر محفوظ علاقوں میں پناہ گزین ہیں۔
اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے مہاجرین کے ہائی کمشنر فلیپو گرینڈی کا کہنا ہے کہ اندرونی طور پر بے گھر ہونے والوں کی تعداد پچھلے 10 برسوں میں دگنی ہو گئی ہے۔ ان میں 42 فی صد بچے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس رپورٹ میں یہ نشاندہی کی گئی ہے کہ بیرون ملک پناہ لینے والوں میں سے دو تہائی افراد کا تعلق شام، وینزویلا، افغانستان، جنوبی سوڈان اور میانمار سے ہے۔
ترکی وہ ملک ہے جس نے مسلسل سات برسوں سے مہاجرین کو سب سے زیادہ پناہ دی ہے، اس کے بعد کولمبیا، پاکستان، یوگنڈا اور جرمنی کا نمبر آتا ہے۔
ہائی کمشنر گرینڈی کا کہنا ہے کہ بے گھری کے موجودہ عالمی بحران میں اضافے کے مزید امکانات ہیں۔
2021 کے پہلے 6 مہینوں میں بہت کم مہاجرین اپنے ملکوں کو واپس گئے ہیں۔ جب کہ بہت سے نئے بحران بھی سر اٹھا رہے ہیں، اور ان حالات میں بے گھر ہونے والوں کی تعداد بڑھنے کا امکان قوی ہے۔