جرمنی میں تینتیس فیصد نوجوان خواتین پر تشدد کو قابل قبول سمجھتے ہیں۔یہ بات ایک غیر سرکاری تنظیم کے جائزے سے سامنے آئی ہے ۔ دوسری طرف اقوام متحدہ کے ترقیاتی فنڈ (یو این ڈی پی) کے ایک جائزے میں بتایا گیا ہے کہ پچھلی ایک دہائی کے دوران خواتین کے خلاف امتیازی رویوں اور صنفی تعصب میں خاطر خواہ کمی نہیں آئی ہے۔
جرمنی میں چلڈرن چیریٹی پلان انٹرنیشنل نامی ادارے کے سروے میں ایک ہزار مردوں اور ایک ہزار خواتین نے مختلف سوالات کے جواب دیے۔سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ اٹھارہ سے پینتیس سال کی عمر کے تینتیس فیصد مردوں کا خیال تھا کہ خاتون ساتھی کے ساتھ جھگڑے کے دوران ہاتھ اٹھ جانا ’قابل قبول‘ ہےاور چونتیس فیصد مردوں نے زندگی میں کبھی نہ کبھی خواتین کے خلاف تشدد آمیز رویئے کا اعتراف کیا۔ باون فیصد مرد خود کو خاندان کی کفالت کا ذمے دار سمجھتے ہیں جبکہ ان کے خیال میں خواتین کی جگہ ان کا گھر ہے جہاں وہ گھر اور بچوں کی دیکھ بھال کی ذمے دار ہیں ۔صنفی مساوات کو فروغ دینے والی تنظیم فیڈرل فورم مین کے کارسٹن کیسنر نے سروے کے نتائج کو حیران کن قرار دیا ہے ۔
مرد خواتین کے مقابلے میں بہتر سیاسی رہنما ثابت ہوتے ہیں؟
دوسری طرف اقوام متحدہ کی ترقیاتی فنڈ کی ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق خواتین کے خلاف امتیازی سلوک اور تعصب پرمبنی رویوں میں پچھلی ایک دہائی کے دوران کوئی بہتری نہیں ہوئی ہے۔ کچھ سال قبل خواتین کے حقوق کی وکالت کرنے والی ایک تنظیم ’می ٹو‘ کو خواتین کے حقوق کی جانب اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا تھا لیکن تعصبات اور خواتین مخالف رجحانات کو تبدیل کرنے میں کچھ زیادہ بہتری نہیں آئی ہے۔
متعصب سماجی رویے مردوں اور عورتوں دونوں میں ہی نظرآتے ہیں ۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے ایک تجزیئے کے مطابق تقریباً نوے فیصدافراد میں کم از کم ایک قسم کا تعصب ضرور موجود ہے اور اس کے نتیجے میں مرد اور عورت دونوں پر ہی اس کے اثرات یکساں طور پر مرتب ہوتے ہیں ۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے نے عالمی اقدار کے سروے یا ورلڈ ویلیوز سروے پر مبنی معلومات کا ڈیٹا استعمال کرتے ہوئے یہ جائزہ لیا ہے کہ دنیا بھر میں اقدار اور عقائد کس طرح تبدیل ہو رہے ہیں۔ یہ ورلڈ ویلیوز سروے ایک بین الاقوامی پراجیکٹ ہے۔
SEE ALSO: افغان خواتین پر طالبان کی پابندیاں انسانیت کے خلاف جرم ہیں: عالمی تنظیمیںاقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام یو این ڈی پی نے بتایا ہے کہ خواتین کے حقوق کے لیے اٹھنے والی می ٹو جیسی طاقتور عالمی اور مقامی مہمات کے باوجود گزشتہ ایک دہائی میں خواتین کے خلاف روا رکھے جانے والے متعصب رویوں میں کوئی بہتری نہیں ہوئی ۔
دنیا کی انہتر فیصد آبادی اب بھی اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ مرد خواتین کے مقابلے میں بہتر سیاسی رہنما ثابت ہوتے ہیں جبکہ صرف 27ستائیس فیصد کا خیال ہے کہ خواتین کے مردوں کے ساتھ مساوی حقوق جمہوریت کے لیے ضروری ہیں ۔
تقریباً نصف آبادی یاپھر چھیالیس فیصد کا خیال ہے کہ عورتوں کے مقابلے میں مردوں کو ملازمت کا زیادہ حق ہے اور وہ بہترین کاروباری لیڈر بھی بنتے ہیں ۔اور خواتین سے بد سلوکی کو نظر انداز کرتے ہوئے آبادی کا ایک چوتھائی حصہ یہ بھی سوچتا ہے کہ مرد کے لیے اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھانا جائز ہےجبکہ تعلیم کے معاملے پر بھی اٹھائیس فیصد کا خیال ہے کہ یونیورسٹی کی تعلیم عورتوں کے مقابلے میں مردوں کے لیے زیادہ اہم ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس نوعیت کے تعصبات یا امتیازی رویئے خواتین کے لیے ’رکاوٹیں‘پیدا کرتے ہیں اور دنیا کے بہت سے حصوں میں خواتین کے حقوق کو ختم کرنے میں انہیں رویوں کی عکاسی ہوتی ہے ۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایسے متعصب صنفی رویوں کو ختم کئے بغیر صنفی مساوات یا پائیدار ترقی کے اہداف حاصل نہیں ہو پائیں گے۔
اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام یا یو این ڈی پی کے ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ آفس ڈائریکٹر پیڈرو کونسیکاو نے اس تناظر میں ایک بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ خواتین کے حقوق کو نقصان پہنچانے والے سماجی رویئے معاشرے کے لیے کہیں زیادہ نقصان دہ ہیں کیونکہ ان رویوں کے نتیجے میں انسانی ترقی محدود ہو جاتی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کو خواتین کے لئے آزادی اور حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے مل کر کام کرنا چاہیئے کیونکہ یہ (معاشرے کے لئے) سود مند ہے ۔
وی او اے نیوز