شمالی وزیرستان میں غیر اعلانیہ کرفیو سے لوگ پریشان

فائل

عہدیدار نے بتایا کہ ہفتہ وار کرفیو کے دوران فوج اور دیگر سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا ہے۔

افغانستان سے متصل پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں غیر اعلانیہ کرفیو کی وجہ سے سڑکوں کی بندش کے باعث ہزاروں افراد کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

قبائلی ذرائع نے بتایا ہے کہ منگل کی صبح سکیورٹی فورسز نے شمالی وزیرستان کی تمام اندرونی سڑکوں اور راستوں جب کہ ایجنسی کے صدر مقام میران شاہ اور خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع بنوں کو ملانے والی مرکزی شاہراہ پر کرفیو نافذ کرکے اسے ہر طرح کی آمدورفت اور معاشی سرگرمیوں کے لیے بند کر دیا۔

غیر اعلانیہ کرفیو کے نفاذ کے باعث شمالی وزیرستان اور خیبر پختونخوا کے درمیان سفر کرنے والے ہزاروں افراد جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں بنوں اور دیگر علاقوں میں پھنس گئے ہیں۔

مسافروں کے علاوہ ساز و سامان سے لدے سیکڑوں ٹرک، ڈاٹسن اور سوزوکی پک اپ بھی کرفیو کے نفاذ کی وجہ سے مختلف علاقوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔

شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ایک سرکردہ قبائلی رہنما ملک غلام نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ 2007ء سے اب تک ایجنسی میں اتوار کو باقاعدگی سے کرفیو نافذ کیا جاتا رہا ہے۔

مگر ان کے بقول اس بار اتوار کے بجائے منگل کو بغیر پیشگی اطلاع یا اعلان کے کرفیو نافذ کرکے لوگوں کے لیے مشکلات پیدا کر دی گئی ہیں۔

ملک غلام نے بتایا کہ سڑکوں کی بندش کے باعث خیبر پختونخوا کے جنوبی شہر بنوں سے شمالی وزیرستان جانے والے ہزاروں لوگ پھنس چکے ہیں۔ مسافروں سے بھری گاڑیاں اور سامان سے لدے ٹرک سیکڑوں کی تعداد میں بنوں شہر اور نواحی علاقوں میں سڑک کے کنارے کھڑے ہیں۔

شمالی وزیرستان کی انتظامیہ میں شامل ایک عہدیدار نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ محرم الحرام کے باعث اس بار اتوار کو کرفیو نہیں لگایا گیا تھا اور اس لیے منگل کو ایجنسی میں کرفیو نافذ کیا گیا ہے۔

عہدیدار نے بتایا کہ ہفتہ وار کرفیو کے دوران فوج اور دیگر سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا ہے۔

پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ماضی میں سکیورٹی فورسز کے قافلوں کو اس وقت عسکریت پسند دیسی ساختہ بموں سے نشانہ بناتے رہے ہیں جب وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے تھے۔

لیکن ہفتہ وار کرفیو کے نفاذ کے باعث سکیورٹی فورسز کے قافلوں پر دہشت گردوں کے حملوں کا سلسلہ بڑی حد تک رک گیا ہے۔