|
ویب ڈیسک — شمالی غزہ میں گزشتہ ایک ماہ سے کسی بھی قسم کی کھانے کی اشیا نہ پہنچنے کے سبب ہزاروں فلسطینیوں کو دستیاب خوراک کا ذخیرہ ختم ہونے والا ہے۔
فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ ارد گرد کے علاقوں میں جب بمباری ہو رہی ہوتی ہے تو وہ تباہ شدہ گھروں کے ملبے سے اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر کھانے کے ڈبے تلاش کرتے ہیں۔
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق خوراک سے محروم ہزاروں فلسطینی غزہ سٹی پہنچے ہیں جہاں انہیں حالات قدرے بہتر دکھائی دیتے ہیں۔
شمالی غزہ کے رہائشی محمد ارقوق آٹھ افراد پر مشتمل اپنے کنبے کے ساتھ شمالی غزہ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ انہیں اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور کرنے کے لیے بھوکا مارا جا رہا ہے۔ ان کے بقول وہ اپنے گھر میں مرنے کو ترجیح دیں گے۔
طبی عملے نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیلی فوج کی جانب سے گزشتہ ایک ماہ سے جاری شمالی غزہ کے محاصرے کی وجہ سے شدید غذائی قلت پیدا ہوگئی ہے۔
اسرائیلی فوج اکتوبر کے آغاز سے یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ وہ ان کارروائیوں میں عسکریت پسندوں کو جڑ سے اکھاڑ رہی ہے۔
SEE ALSO: قطر کا اسرائیل اور حماس میں ثالثی کردار معطل کرنے کا فیصلہ، یرغمالوں کے لواحقین کو تشویشرپورٹس کے مطابق حماس کے عسکریت پسند جنہوں نے اسرائیلی یرغمالوں کو غزہ میں یرغمال بنا رکھا ہے، علاقے میں ایک بار پھر منظم ہو گئے ہیں اور سرنگوں اور تباہ شدہ عمارتوں سے حملے کر کے فرار ہو رہے ہیں۔
اسرائیلی فوج نے علاقے کو چوکیاں بنا کر دیگر غزہ سے کاٹ دیا ہے جب کہ رہائشیوں کو نکل جانے کا حکم دیا ہے۔
بہت سے فلسطینیوں کو خدشہ ہے کہ اسرائیل کا مقصد شمالی علاقوں میں آبادی کو کم کرنا ہے۔
خوراک کی فراہمی پر نظر رکھنے والے ایک پینل کا جمعے کو کہنا تھا کہ شمالی غزہ میں قحط پڑ چکا ہے یا اس کے قریب ہے۔
غزہ میں حالات کی بہتری کی امیدیں دم توڑ رہی ہیں کیوں کہ بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے اسرائیل کو دیے گئے 30 دن کی مہلت قریب آ رہی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ یا تو غزہ میں امداد کو بڑھایا جائے یا پھر اسرائیل امریکی فوجی فنڈنگ پر ممکنہ پابندیوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہے۔
SEE ALSO: اسرائیل کو اسلحہ دے کر مغربی ملک جنگجوؤں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں، ہیومن رائٹس واچامریکہ کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو روزانہ کم از کم 350 ٹرکوں کو خوراک اور دیگر سامان لے جانے کی اجازت دینی چاہیے جب کہ اسرائیل کی جانب سے بہت محدود پیمانے پر امدادی سامان غزہ لے جانے کی اجازت دی جارہی ہے۔
اسرائیل کی امداد پر نظر رکھنے والی ایجنسی کے مطابق رواں سال اکتوبر میں اوسطاً 57 ٹرک روزانہ غزہ میں داخل ہوئے جب کہ نومبر کے پہلے ہفتے میں اوسطاً 81 ٹرک داخل ہوئے۔
علاوہ ازیں اقوامِ متحدہ کے جاری کردہ اعداد و شمار ان سے بھی کم ہیں اور اس کے مطابق اکتوبر شروع ہونے کے بعد سے 37 ٹرک یومیہ غزہ پہنچ پا رہے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق اسرائیلی فوجی کارروائیاں اور عام لا قانونیت اسے اکثر سامان اکٹھا کرنے سے روکتی ہے جس کے سبب سینکڑوں ٹرک سرحد پر پھنس جاتے ہیں۔
امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے وسطی غزہ میں ایک نئی کراسنگ کھولنے اور ترسیل کے نئے راستوں کی منظوری دے کر کچھ پیش رفت کی ہے۔
SEE ALSO: غزہ جنگ میں تقریباً 70 فی صد خواتین اور بچوں کی اموات ہوئیں: اقوامِ متحدہتاہم ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو مزید کرنے کی ضرورت ہے اور یہ کافی نہیں ہے کہ نئے راستے کھول دیے جائیں اگر ان راستوں سے امداد کی ترسیل ہی نہ ہو۔
غزہ سٹی کے ایک اسپتال سے منسلک غذائی ماہر ڈاکٹر رعنا صبح کا کہنا ہے کہ وہ روزانہ ساڑھے تین سو سے زائد ایسے کیسز دیکھتی ہیں جن مین غذائیت کی مکمل یا جزوی کمی ہوتی ہے۔
ان کے بقول ان کیسز میں سے زیادہ تر کا تعلق شمالی غزہ سے ہے لیکن غزہ سٹی میں بھی ایسے کیسز سامنے آ رہے ہیں۔
ڈاکٹر احمد عسکائک غزہ سٹی کے فرینڈز اسپٹل میں کام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شمالی غزہ کے محاصرے سے قبل ہی غذائیت کی کمی کے کیسز میں اضافہ ہوگیا تھا اور ستمبر میں ان کے اسپتال میں ایسے 4780 کیسز آئے جب کہ جولائی میں ان کی تعداد 11 سو کے لگ بھگ تھی۔
واضح رہے کہ سات اکتوبر 2023 کو غزہ کی عسکری تنظیم حماس نے اسرائیل کے جنوبی علاقوں پر حملہ کیا تھا جس میں اسرائیلی حکام کے مطابق لگ بھگ 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے جب کہ حماس نے ڈھائی سو افراد کو یرغمال بنا کر غزہ منتقل کر دیا تھا۔
اسرائیل میں بن یامین نتین یاہو کی اتحادی حکومت نے اسی دن غزہ میں کارروائی کا آغاز کر دیا تھا اور اسرائیلی فوج نے اس ساحلی پٹی کا محاصرہ کر لیا تھا جو اب بھی جاری ہے۔
اسرائیلی فوج کی کارروائی میں گزشتہ ایک برس کے دوران غزہ میں حماس کے زیرِ انتظام محکمۂ صحت کے مطابق لگ بھگ 42 ہزار فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔ تاہم محکمۂ صحت نے یہ نہیں بتایا کہ ان ہلاک ہونے والوں میں عسکریت پسند کتنے تھے۔
اس رپورٹ میں شامل معلومات خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لی گئی ہیں۔