جیسا کہ خبروں میں آپ نے سنا ہوگا، اقوام متحدہ کے تعلیمی سائنسی اورثقا فتی ادارےیونیسکو نے 14 کے مقابلےمیں 107 ووٹوں کی بھاری اکثریت سے فلسطینی مملکت کو رکنیت دے دی ہے۔
اخبار’شکاگو ٹریبیون‘ ایک ادرایےمیں کہتا ہے کہ پیرس میں اس رائے شماری کےبعد یونیسکو کا اجلاس تالیوں سے گونج اٹھا۔ اخبار کہتا ہے کہ یہ کوئی تعجُب کی بات نہیں کیونکہ فلسطینیوں کے لئے اقوام متحدہ میں بہت ہمدردی موجود ہےخاص طورپر سلامتی کونسل کے راستے اس عالمی ادارئے کی رکنیت حاصل کرنے کے لئے۔ لیکن اخبار کہتا ہے کہ سلامتی کونسل نے فلسطین کی درخواست پر اس اُمّید سے مصلحتاً تاخیر کر رکھی ہے کہ شاید فلسطینی اسرائیلی مذاکرات دوبارہ شروع کرانے کی جو کوششیں جاری ہیں ان میں کوئی کامیابی ہو۔
اخبار کی نظر میں فلسطینی حکمت عملی یہ ہے کہ سرحدوں، پناہ گزینوں اور یروشلم کےمسائل پر مذاکرات سے پہلے ہی مملکت کا اعلان کرکے اسرائیل کے لیےمشکل پیدا کی جائے۔
اخبار کہتا ہے یونیسکو کی ذمہ داریوں میں تاریخی اہمیت کے مقامات کی حفاظت کرنا، پانی کے معیا ر کو بہتر بنانا اور لڑکیوں کے لئے مساوی حقوق حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کرنا ہے۔ اور فلسطینیوں کے ایک مملکت کے حصول سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔ اخبار کہتا ہے امریکی قانون کے تحت اقوام متحدہ کی اُن ایجنسیوں کو امریکی مالی امداد بند کرنا لازمی ہو جاتا ہے جو فلسطینیوں کو مکمل رکنیت عطا کرے۔ اخبار کہتا ہے کہ ابھی تک کانگریس میں اس قاعدے کو بدلنے کی کوئی جلدی نہیں دیکھنے میں آرہی اور ہونی بھی نہیں چاہئے، کیونکہ اخبار کے خیال میں یہ چوٹ عالمی ادارے نے اپنے اوپر خود لگائی ہے ۔
اِسی موضوع پر’ واشنگٹن ٹائمز‘ اخبار ایک اداریے میں لکھتا ہے کہ اگر امریکہ نے یونیسکو کے پیسے روک لئے تو پھر اُسے یہ ادارہ چھوڑ دینا پڑے گا۔ لیکن، ایسا پہلے بھی ہو چکا ہے جب 1984ء میں ریگن انظامیہ نے یونیسکو چھوڑ دیا تھا ۔ لیکن، پھرسنہ 2002 میں جارج بُش کے دور میں امریکہ نے اپنی رکنیت بحال کرائی تھی۔
اخبار کا کہنا ہے کہ چندہ روکنے کا اقوام متحدہ پربحیثیت مجموعی اثر پڑ سکتا ہے۔ ستمبر میں فلسطینی انتظامیہ نےعالمی ادارے کی رکنیت حاصل کرنےکا جو قدم اٹھایا۔ اگر اس کو منظور کیا گیا تو پھر اقوام متحدہ کا ادارہ بھی امریکی چندے سے محروم ہو سکتا ہے جس سے اور ادارے بھی مثلاً صحت کا عالمی ادارہ، عالمی تجارتی ادارہ اور عالمی بنک بھی متاثّر ہو سکتے ہیں۔ اور اخبار کے خیال میں یہ نیرنگئے تقدیر ہوگی اگر فلسطینی مملکت کی رکنیت کی وجہ سے یہ عالمی ادارہ امریکی چندے سے مکمل طور پر محروم ہو جائے۔
’وال اسٹریٹ‘ قبضہ تحریک کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کی وجوہات پر’ہُیوسٹن کرانیکل‘ میں معروف کالم نگار، ٹام فریڈمین کہتے ہیں کہ امریکہ کی مالیاتی صنعت اتنی بھاری بھرکم اور مالدار ہو گئی ہے کہ اس نے سیاسی چندے دے دے کرملک کے اصلی اداروں کوبدعنوان کر دیا ہے۔ اور جیسا کہ ایلی نائے کے ڈموکریٹک سینیٹر ڈِِٕک ڈربن نے کہا ہے جن مالیاتی اداروں نے اس بُحران کو جنم دیا ہے اُنہیں اداروں کو کیپٹل ہل پر سب سے طاقتور لابی کی حیثیت حاصل ہے، بلکہ حق تو یہ ہے کہ یہ جگہ ان کی ملکیت بن گئی ہے فریڈمین کہتے ہیں کہ کانگریس میں رشوت دہی جائز ہو گئی ہے۔
صارفین کے ایک ادارے کا تخمینہ ہے کہ مالیاتی سروسز فراہم کرنے والی صنعت نےسنہ1990 اور 2010ء کے درمیان وفاقی انتخابات لڑنے والوں کو چندہ دینے پر 2 اعشاریہ 3 ارب ڈالر کی رقم خرچ کیے۔ کالم نگار کا کہنا ہے کہ یہ صورت حال اب ناقابل برداشت ہو گئی ہے۔
سرمایہ داری اور آزادانہ منڈیاں اقتصادی نشوونما اورغربت مٹانے کا بہترین ذریعہ ہیں، بشرطیکہ وہ متوازن اور بالکل صاف و شفاف ہوں، ضابطوں کی پابند ہوں اور اُن پر کڑی نظر رکھی گئی ہو۔ امریکہ نے پچھلے ایک عشرے کے دوران یہ توازن کھو دیا ہے اور یہ توازن بحال نہ کیا گیا تو پھر اسے ایک اور بحران کا سامنا کرنا پڑے گا، اور اگر ایسا ہوا، تو انصاف کےلئے عوام کی تحریک خطرناک شکل اختیار کرے گی۔