وزیراعظم کا جنرل اسمبلی سے خطاب: 'افغان عوام کی فوری مدد اور طالبان کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے'

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 76ویں اجلاس سے وزیراعظم عمران خان نے بذریعہ ویڈیو لنک  نے خطاب کیا۔

وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ افغان عوام کی فوری مدد کی جائے تاکہ وہ غربت کی دلدل سے باہر نکل سکیں اور وقت ضائع کیے بغیر مستقبل کو نظر میں رکھتے ہوئے عمران خان کے بقول ضرورت اس بات کی ہے کہ افغان عوام کی ہر طرح سے مدد کی جائے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 76ویں اجلاس سے بذریعہ ویڈیو لنک خطاب میں عمران خان نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ یہ وقت افغان عوام کو سہارا دینے کا ہے جنھوں نے کئی دہائیوں تک مصیبتیں اور تکالیف جھیلیں۔

اس کے علاوہ وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ طالبان کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے، انھیں تنہا نہ چھوڑا جائے تاکہ افغانستان کی حکومت بہتر انداز سے چل سکے۔ جس سے ان کے بقول ہمسایہ ملکوں اور بین الاقوامی برادری کو لاحق تحفظات دور ہوں گے اور ملک میں امن و امان قائم اور ترقی ہو سکے گی۔

عمران خان نے کہا کہ​ 20 سال تک امریکہ اور امریکی اتحاد کی جانب سے کی جانے والی محنت کو کسی طور پر ضائع اور رائیگاں نہیں جانا چاہیے۔

پاکستانی وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ دوحہ بات چیت اور معاہدے کے نتیجے میں جو اہداف طالبان کو دیے گئے ان کی پاسداری کے لیے ان کی مدد کی جانی چاہیے۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے میں فریقین نے انسانی حقوق کو یقینی بنانے، خواتین اور اقلیتوں کو حقوق اور تحفظ دینے اور اس بات کو یقینی بنانے کا وعدہ کیا گیا ہے کہ کسی دہشت گرد گروہ کو افغان سرزمین استعمال کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی۔

عمران خان کا اپنے ویڈیو خطاب میں کہنا تھا کہ جو ثمرات ان دو دہائیوں میں حاصل کیے گئے ہیں، انہیں ضائع نہیں ہونے دیا جانا چاہیے۔ ان کے بقول اس کے لیے طالبان کو مالی وسائل فراہم کیے جائیں اور بین الاقوامی ادارے بڑھ چڑھ کر افغان عوام کی امداد کریں۔

وزیر اعظم نے کہا کہ طالبان نے آتے ہی عام معافی کا اعلان کیا ہے اور ان کی قیادت اور عہدے داروں نے اپنے بیانات میں یقین دلایا ہے کہ جامع حکومت تشکیل دیں گے، انسانی حقوق کی حرمت کو یقینی بنائیں گے اور افغان سرزمین کسی طور پر کسی گروہ کو دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

ان کے بقول انہیں طالبان ہر بھروسہ کرنا چاہیے اور ان کا ساتھ دینا چاہیے تاکہ حالات درست ہوں، امن بحال ہو اور افغان عوام کی مشکلات دور ہوں جو بات ہمسایہ ملکوں کے بھی مفاد میں ہے۔

انھوں نے کہا کہ افغانستان کی ناکامی کا براہ راست اثر اور نتیجہ ہمسایہ ملک پاکستان پر پڑتا ہے۔ گزشتہ 20 سال کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ افغانستان کے اندرونی حالات کی وجہ سے افغان مہاجرین کا پاکستان آنے کا سلسلہ جاری رہا، قبائلی علاقے اور پھر پاکستان بھر میں دہشت گردی شروع ہوئی، تحریک طالبان پاکستان کا وجود سامنے آیا اور قانون نافذ کرنے والے پاکستانی اداروں کے ساتھ جھڑپیں ہوتی رہیں۔ ان کے بقول افغانستان کے بعد سب سے زیادہ ہلاکتیں پاکستان میں ہوئیں اور ہمارے ہزاروں اہل کار بمب دھماکوں میں ہلاک ہوئے۔

عمران خان نے کہا کہ اب جب کہ افغانستان سے امریکی اور اتحادی افواج کا انخلا ہو چکا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ ان وعدوں کی پاسداری کی جائے جو امریکہ اور طالبان کے مابین ہوئے اور جس کے گواہ بین الاقوامی برادری اور پاکستان سمیت دیگر ممالک ہیں۔

عمران خان کے مطابق 11 ستمبر 2001ء کے بعد جب پاکستان دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کا حصہ بنا تو ان دو دہائیوں کے دوران 80 ہزار پاکستانی ہلاک ہوئے، معیشت کو 150 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا جب کہ تین کروڑ 50 لاکھ افراد داخلی طور پر متاثر ہوئے۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کا ذکر کرتے ہوئے پاکستانی وزیر اعظم نے مطالبہ کیا کہ اقوام متحدہ نے ماضی میں کشمیریوں کے ساتھ استصواب رائے کا وعدہ کر رکھا ہے جسے پورا کیا جائے۔

انھوں نے الزام لگایا کہ کشمیریوں کے ساتھ مظالم ہو رہے ہیں اور ان سے بنیادی انسانی حقوق سلب کیے گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی کوشش کر رہا ہے۔

انہوں نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلمانوں کے خلاف حکومتی اقدامات اور ہندو مذہبی گروپس کی مبینہ مخالفانہ کارروائیوں کا بھی ذکر کیا۔

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں جموں و کشمیر کو ایک متنازع علاقے کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ ​

واضح رہے کہ بھارت کشمیر کو اپنا لازمی حصہ قرار دیتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف کارروائیوں کو پراپیگنڈہ قرار دے کر مسترد کرتا ہے۔

بھارت کا کہنا ہے کہ ​ایسے بیانات سے بھارت کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی ہوتی ہے۔

بھارت کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک سیکولر ملک ہے اور بھارتی آئین کے مطابق تمام شہری مساوی حقوق رکھتے ہیں۔

وزیر اعظم نے عالمی فورم کی توجہ مبینہ 'اسلام وفوبیا' کی جانب مبذول کرائی جس سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ نائن الیون کے دہشت گرد حملوں کے بعد بعض حلقوں کی جانب سے دہشت گردی کو اسلام سے منسلک کیا گیا۔ جس کی وجہ سے بعض انتہا پسند گروپس کی جانب سے مسلمانوں کو ہدف بنایا جا رہا ہے اور ان کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم سرزد ہو رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی 'گلوبل کاؤنٹر ٹیررازم اسٹریٹیجی' میں ان ابھرتے ہوئے خطرات کو تسلیم کیا گیا ہے۔

عمران خان نے اپنی تقریر کا آغاز اقوام عالم کو درپیش بڑے چیلنجز کے ذکر سے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا کو کووڈ 19، اقتصادی بحران اور آب و ہوا کی تبدیلی کے بڑے بحرانوں کا ایک ساتھ سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اپنی 'اسمارٹ لاک ڈاؤن' کی حکمت عملی سے کرونا وائرس کا پھیلاؤ محدود کرنے میں کامیاب رہا ہے، جب کہ 'احساس پروگرام 'سے ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ لوگوں کو سماجی تحٖفظ حاصل ہو رہا ہے۔

گلوبل وارمنگ کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے جب کہ پاکستان دنیا کے ان دس ملکوں میں شامل ہے جنہیں آب و ہوا کی تبدیلی کے منفی اثرات کا سب سے زیادہ سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پاکستان اس صورت حال کے مقابلے کے لیے 10 ارب درخت لگانے کے پروگرام پر عمل کر رہا ہے۔

وزیر اعظم نے مطالبہ کیا کہ کووڈ 19 کی وبا کی صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے ترقی پذیر ممالک کو مناسب فنڈز مہیا کیے جانے چاہئیں۔