امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا ہے کہ طالبان کی بین الاقوامی سطح پر قبولیت اور عالمی برادری سے تعلقات کا انحصار ان کے عملی اقدامات پر ہوگا۔
وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے نیو یارک میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقعے پاکستان، چین اور روس کے اعلیٰ سفارت کاروں سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں۔
ان ملاقاتوں کے کے بعد میڈیا سے گفتگو میں امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا کہ عالمی برادری طالبان پر دباؤ ڈالنے کے معاملے پر متحد ہے۔ ان کے بقول افغان طالبان سے متعلق نکتۂ نظر اور طریقۂ کار سے متعلق ٹھوس اتفاقِ رائے موجود ہے۔
اینٹنی بلنکن کا کہنا تھا کہ افغان طالبان بین الاقوامی برادری سے ان کی حکومت کو جائز تسلیم کرنے اور مدد کے خواہاں ہیں۔ بین الاقوامی برادری سے طالبان کے تعلقات کا انحصار ان کے عملی اقدامات پر ہوگا۔
بلنکن نے طالبان کے لیے امریکہ کی طے کردہ ترجیحات کا ایک بار پھر اعادہ کیا جن میں افغان شہریوں اور غیر ملکیوں کو افغانستان سے جانے کی اجازت، خواتین، لڑکیوں اور اقلیتوں کے حقوق کا احترام یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی عمل کرنا شامل ہے کہ افغانستان کی سرزمین کو دوبارہ القاعدہ یا کسی اور شدت پسند تنظیم کو دوبارہ استعمال نہیں کرنے دیا جائے گا۔
طالبان نے افغانستان کے دارالحکومت کابل کا کنٹرول گزشتہ ماہ اگست کے وسط میں حاصل کیا تھا جس کے بعد سے طالبان کوشاں ہیں کہ بین الاقوامی برادری انہیں تسلیم کرے۔ البتہ متعدد ممالک مسلسل طالبان پر زور دے رہے ہیں کہ طالبان کی حکومت کو اسی صورت تسلیم کیا جائے گا جب وہ ایسی جامع حکومت تشکیل دیں گے جس میں خواتین اور دیگر اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ ہو۔
امریکہ اور پاکستان کے وزرائے خارجہ کی ملاقات، افغانستان کے معاملے پر تبادلۂ خیال
نیو یارک میں امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن اور پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کے درمیان ہونے والی ملاقات میں افغانستان کا معاملہ زیر بحث رہا۔
شاہ محمود قریشی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایک وقت آئے گا کہ پاکستان اور امریکہ افغانستان کے علاوہ بھی بات چیت کریں گے۔ ان کے بقول افغانستان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغانستان میں امن و استحکام کے لیے اجتماعی طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ کے مطابق امریکی ہم منصب سے ملاقات میں وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے قریبی تعلقات نہ صرف خطے کے استحکام بلکہ باہمی طور پر بھی سود مند رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں صرف ایک مستحکم اور وسیع البنیاد حکومت ہی یقینی بنا سکتی ہے کہ کوئی دہشت گرد تنظیم افغان سر زمین کو استعمال نہ کر سکے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ طالبان کا جنگ بندی، عام معافی کا اعلان اور خواتین کے حقوق کا تحفظ کرنے کے بیانات حوصلہ افزا ہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ طالبان کو وعدوں کی پاسداری کرنی چاہیے۔
پاکستان کے وزیرِ خارجہ نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ افغانستان میں بڑھتے ہوئے انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے عوام کی مدد کرے۔
انہوں نے زور دیا کہ دنیا افغانستان کو تنہا چھوڑنے کی غلطی نہیں کرے گی۔
نیویارک میں پاکستان کے وزیرِ خارجہ سے ملاقات سے قبل امریکہ کے وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور پاکستان کے لیے افغانستان پر مل کر کام کرنا اہم ہے۔
وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے افغانستان سے امریکہ کے شہریوں اور دیگر افراد کے انخلا میں پاکستان کے تعاون کو سراہا۔
’طالبان انسانی حقوق پر سخت رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں‘
بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار زاہد حسین کا کہنا ہے کہ جب تک طالبان لچک کا مظاہرہ نہیں کریں گے بین الاقوامی برادری نہ تو انہیں تسلیم کرے گی اور نہ ہی طالبان حکومت کو کسی قسم کی اقتصادی امداد فراہم کیا جائے گی۔
زاہد حسین کا کہنا تھا کہ طالبان خود بھی جامع حکومت، خواتین کے حقوق اور افغانستان کو دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے کے عزم کا اظہار کر چکے ہیں۔ ان کے بقول اس کے باوجود طالبان نے عملی طور پر کوئی ایسے اقدامات نہیں کیے جن سے ظاہر ہو کہ وہ اپنے وعدوں کی پاسداری کر رہے ہیں
زاہد حسین کے بقول طالبان انسانی حقوق کے بارے میں ابھی تک سخت رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ طالبان کے لیے یہ آسان نہیں ہو گا کہ بین الاقوامی برادری کے مطالبات کو زیادہ دیر تک نظر انداز کریں۔ ملک کی اقتصادی اور معاشی صورتِ حال کے پیشِ نظر افغانستان الگ تھلگ نہیں رہ سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ طالبان کو اقتصادی امداد کی اشد ضرورت ہے۔ بین الاقوامی برادری اسی صورت میں ان کی مد کرے گی اگر طالبان ان کے تحفظات کو دور کرنے کی سنجیدہ کوشش کریں۔
تجزیہ کار زاہد حسین نے کہا کہ چین اور روس کا طالبان سے متعلق معاملات طے کرنے کا طریقۂ کار دیگر ممالک سے مختلف ہو سکتا ہے۔ دونوں ممالک اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ طالبان کو بین الاقوامی برادری کے مطالبات پر غور کرنا چاہیے۔