شام میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال، سلامتی کونسل میں بحث جاری

فائل

امریکی سفیر سمنتھا پاور نے اِس رپورٹ کو جس میں ذمہ داری کا تعین کیا گیا ہے ’’سنگ میل‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حملہ کرنے والوں کو ’’سخت قیمت‘‘ ادا کرنی پڑے گی

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اس بات پر غور کر رہی ہے آیا شام پر تعزیرات لاگو کی جائیں، جس سے قبل چھان بین کرنے والے اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ حکومت نے شہریوں پر کیمیائی ہتھیار گرائے ہیں۔

پہلی بار اقوام متحدہ کے کسی پینل نے اسد حکومت پر اس زیادتی کا براہ راست موجب قرار دیا ہے۔ رپورٹ میں داعش پر بھی کم از کم ایک ایسے حملے کا الزام لگایا گیا ہے۔

اس سے پہلے آزادانہ تفتیش میں کہا گیا تھا کہ شہریوں کے خلاف کیمیائی ہتھیار یقینی طور پر استعمال ہوئے ہیں۔ تاہم، یہ نہیں کہا گیا کہ اِن کا ذمہ دار کون ہے۔

امریکی سفیر سمنتھا پاور نے اِس رپورٹ کو جس میں ذمہ داری کا تعین کیا گیا ہے ’’سنگ میل‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حملہ کرنے والوں کو ’’سخت قیمت‘‘ ادا کرنی پڑے گی۔

بقول اُن کے، ’’کونسل پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ فوری طور پر قدم اٹھائے ،تاکہ بامعنی احتساب کے مطالبے پر سنجیدگی سے عمل ہو سکے۔‘‘

تفتیش کاروں نے کہا ہے کہ سنہ 2014 اور 2015ء میں صوبہٴ ادلب کے دو دیہات پر ہیلی کاپٹروں سے کیمیائی بم گرائے گئے۔ سرگرم شامی کارکنوں کا کہنا ہے کہ چھ افراد ہلاک ہوئے جب کہ درجنوں مرد، خواتین اور بچوں نے اسپتالوں کا رُخ کیا، اُن کی سانس اکھڑی ہوئی تھی اور وہ سانس لینے کی کوشش کر رہے تھے، اور اُن کی آنکھیں جل رہی تھیں۔

فرانس کے سفیر نے کیمیائی حملوں کو جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا، جب کہ برطانوی سفیر نے کہا کہ ’’دلیرانہ بین الاقوامی جواب‘‘ لازم ہے۔