بھارت کی صدارت میں پہلی بار افغانستان کے مسئلے پر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس ہو رہا ہے۔
جمعے کو ہونے والے اجلاس میں افغانستان میں جاری طالبان کے حملوں، ان کی پیش قدمی اور تشدد کو روکنے اور تعطل کے شکار افغان امن عمل کو آگے بڑھانے کے امکانات پر غور کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں قراداد منظور ہونے کا امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔
یاد رہے کہ بھارت غیر مستقل رکن کی حیثیت سے اگست میں ایک ماہ کے لیے سلامتی کونسل کی صدارت کر رہا ہے۔ بھارت 2021 اور 2022 کے لیے سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اور نو غیر مستقل اراکین کے ساتھ مشاورت کے بعد افغانستان کے مسئلے پر اجلاس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
مبصرین کے مطابق افغانستان کو امید ہے کہ اجلاس میں گزشتہ برس امریکہ کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی طالبان کی جانب سے مبینہ خلاف ورزیوں اور ان کی پرتشدد کارروائیوں پر توجہ دی جائے گی۔
اس کے علاوہ کئی ماہ سے تعطل کے شکار افغان امن عمل کو آگے بڑھانے کی بھی کوشش کی جائے گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ اجلاس کے بعد طالبان کے حملے روکنے اور افغانستان کی موجودہ صورتِ حال پر سلامتی کونسل کوئی بیان جاری کر سکتی ہے۔ البتہ بعض دیگر کی رائے اس سے مختلف ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ بھارت اور سلامتی کونسل کے بعض دیگر اراکین طالبان اور پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن سلامتی کونسل کا مستقل رکن چین ایسے کسی بھی بیان کو ویٹو کرنے یا روکنے کی کوشش کرے گا جس میں پاکستان پر تنقید کی گئی ہو۔
سلامتی کونسل کا یہ اجلاس افغانستان کے وزیرِ خارجہ حنیف اتمر کی بھارتی ہم منصب ایس جے شنکر کے ساتھ فون پر رابطے کے بعد منعقد ہو رہا ہے۔
اس گفتگو میں حنیف اتمر نے بھارتی وزیرِ خارجہ سے افغانستان کے مسئلے پر سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس منعقد کرنے کی اپیل کی تھی۔
تین اگست کو ہونے والی بات چیت کے بعد حنیف اتمر نے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ اقوام متحدہ اور عالمی برادری کو افغانستان میں طالبان کی پرتشدد کارروائیاں روکنے کے لیے کلیدی کردار ادا کرنا چاہیے۔
انھوں نے بھارت کی جانب سے سلامتی کونسل کی صدارت کا خیر مقدم بھی کیا تھا۔
افغان وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ حنیف اتمر نے جے شنکر کے ساتھ ہونے والی گفتگو میں غیر ملکی دہشت گردوں کے ساتھ طالبان کے حملوں کا ذکر کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
انھوں نے ان حملوں کی وجہ سے خطے کے استحکام پر پڑنے والے ممکنہ خطرے کا بھی ذکر کیا تھا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ایس جے شنکر نے حنیف اتمر سے بات چیت کے دوران افغانستان میں طالبان کے حملوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر شدید تشویش اظہار کیا اور وہاں قیامِ امن کے لیے اقدامات پر زور دیا تھا۔
بھارت میں افغانستان کے سفیر فرید ماموند زئی نے بھی سلامتی کونسل کے اجلاس کا خیر مقدم کیا اور کونسل کے صدر کی حیثیت سے کلیدی کردار ادا کرنے پر بھارت کا شکریہ ادا کیا ہے۔
انھوں نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ افغانستان کے مسئلے پر سلامتی کونسل کے اجلاس کا انعقاد ایک مثبت قدم ہے۔ اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل کو دہشت گردوں کے مبینہ مظالم اور تشدد کی وجہ سے افغان عوام کو در پیش صورتِ حال ختم کرانے کے لیے کلیدی کردار ادا کرنا چاہیے۔
بھارت کی وزارتِ خارجہ نے جمعرات کو کہا ہے کہ سلامتی کونسل کے اجلاس میں بھارت افغانستان کے بارے میں اپنا مؤقف پیش کرے گا۔
بیان میں حالیہ دنوں میں طالبان کی جانب سے کیے جانے والے حملوں کے تناظر میں فوری طور پر جامع سیز فائر کی ضرورت پر زور بھی دیا گیا تھا۔
افغانستان کے ساتھ اسٹریٹجک شراکت داری
بھارت کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے اپنی ہفتہ وار پریس بریفنگ میں کہا کہ بھارت کو توقع ہے کہ اجلاس کے دوران افغانستان کے مسئلے پر نتیجہ خیز تبادلۂ خیال ہوگا۔
انھوں نے کہا کہ بھارت افغانستان کی بدلتی ہوئی صورتِ حال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
ترجمان کے مطابق بھارت افغانستان کے پر امن، جمہوری اور خوشحال مستقبل کی افغان عوام کی خواہش اور افغانستان کی قیادت کے مابین امن مذاکرات کی حمایت کرتا ہے۔
انھوں نے بھارت اور افغانستان کے رشتوں پرروشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ دونوں ملکوں میں 2011 میں اسٹریٹجک شراکت داری کا معاہدہ ہوا تھا۔
اجلاس کا نتیجہ کیا ہو گا؟
سابق سفارت کار اشوک سجن ہار نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ افغانستان کے مسئلے پر بھارت کی صدارت میں سلامتی کونسل کا اجلاس نہ صرف بھارت بلکہ پوری دنیا کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔
ان کے مطابق بھارت اور دیگر ممالک بھی چاہتے ہیں کہ افغانستان میں امن قائم ہو اور دہشت گرد حملوں اور تشدد کا خاتمہ ہو کیوں کہ وہاں اس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
SEE ALSO: بلنکن کا دورۂ نئی دہلی، 'پرامن افغانستان امریکہ اور بھارت کے مفاد میں ہے'انھوں نے کہا کہ سلامتی کونسل کے اجلاس میں افغانستان کی اس صورتِ حال پر اجلاس میں تفصیلی تبادلۂ خیال ہو گا اور جو بھی نتیجہ برآمد ہوا اس کی افغانستان میں قیامِ امن کے تعلق سے بڑی اہمیت ہو گی۔
ان کے مطابق اجلاس کے بعد ایک سخت قرارداد منظور ہونے کا امکان ہے جو طالبان کے لیے ہو گی۔
ان کا کہنا تھا کہ طالبان کی پشت پر پاکستان کھڑا ہے۔ حالاں کہ تشدد میں اس کا براہ راست کوئی کردار نہیں ہے لیکن افغانستان کے سینئر رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان طالبان کی حمایت بند کر دے تو طالبان کا اثر کم ہو جائے گا۔
پاکستان نے افغان رہنماؤں کے ان بیانات کو با رہا سختی سے مسترد کیا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان اس بات سے انکار کرتا ہے کہ طالبان اس کے زیرِ اثر ہیں۔ وہ افغانستان میں تشدد میں اپنے کسی براہِ راست یا بالواسطہ کردار کی بھی تردید کر چکا ہے۔
اشوک سجن ہار اس امکان کو مسترد کرتے ہیں کہ سلامتی کونسل میں اگر پاکستان اور طالبان پر دباؤ ڈالنے والا کوئی بیان آتا ہے تو چین اس کی مخالفت کرے گا۔
ان کے خیال میں چین بھی افغانستان میں قیامِ امن، تشدد کے خاتمے اور مذاکرات کی مدد سے مسائل کو حل کرنے کی خواہش ظاہر کر چکا ہے۔
ان کے مطابق سلامتی کونسل کے اجلاس سے اگر تشدد کے خاتمے اور امن قائم کرنے کے سلسلے میں طالبان اور دیگر فریقین پر دباؤ ڈالنے کا کوئی بیان سامنے آتا ہے تو کوئی بھی اس کی مخالفت نہیں کرے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
انھوں نے کہا کہ اگر افغانستان میں طالبان کے قیادت میں کوئی حکومت قائم ہوتی ہے تو ایسی صورت میں امریکہ کے صدر جوبائیڈن پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ افغانستان کی ترقی و دفاع کے لیے تین ساڑھے تین ارب ڈالر کی مدد روک دی جائے۔ اس اندازہ ہوتا ہے کہ عالمی برادری بھی ایسی کسی حکومت کو تسلیم نہیں کرے گی۔
بھارت کی ترجیحات
ان کے مطابق اگر اجلاس کے دوران ایسے سخت اقدامات کا اعلان کیا جاتا ہے تو اس کا اثر پڑے گا۔ لیکن صرف مذاکرات کی مدد سے افغانستان کی صورتِ حال کو بہتر نہیں بنایا جا سکتا۔
ان کے خیال میں سلامتی کونسل کے اراکین کو بھی اس کا احساس ہوگا اور بھارت کو بھی ہے۔ لہٰذا انھیں امید ہے کہ اجلاس نتیجہ خیز ہو گا اور طالبان پر دباؤ ڈالنے کے لیے سخت اقدامات کا اعلان کیا جائے گا۔
ان کے مطابق بھارت نے اپنی ترجیحات کا اعلان کرتے ہوئے انسدادِ دہشت گردی، میری ٹائم سیکیورٹی اور قیامِ امن کے جن تین ایشوز کو اٹھایا ہے کوئی بھی ملک ان کی اہمیت سے انکار نہیں کر سکتا۔
ان کے مطابق پاکستان سمیت کئی ممالک دہشت گردی کے شکار ہیں اور پوری دنیا چاہتی ہے کہ اس کا خاتمہ ہو۔ یہ صرف بھارت کا نہیں بلکہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ آج کے دور میں 90 فی صد تجارت بحری راستوں سے ہوتی ہے۔ اس لیے میری ٹائم سیکیورٹی بھی تمام ملکوں کا مسئلہ ہے۔ اسی طرح کوئی بھی ملک جنگ زدہ ملکوں میں قیامِ امن کا مخالف نہیں ہے۔
ان کے بقول اس لیے یہ کہنا کہ بھارت سلامتی کونسل کے صدر کی حیثیت سے اس اجلاس کو اپنے مفاد میں استعمال کرے گا، یہ تاثر غلط ہے۔
’بھارت کے مفادات داؤ پر لگے ہیں‘
ایک سینئر تجزیہ کار اویناش پالیوال کے مطابق افغانستان کی موجودہ صورتِ حال پر بھارت کو تشویش ہے۔ بھارت کے مفادات داؤ پر لگے ہوئے ہیں۔ بھارت نے افغانستان کی تعمیرِ نو میں تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سلامتی کونسل اپنے انداز میں کام کرتی ہے۔ تاہم موجودہ حالات میں بھارت کا ایک ماہ کے لیے سلامتی کونسل کا صدر نامزد ہونا نہ تو طالبان کے لیے پسندیدہ ہے اور نہ ہی پاکستان کے لیے۔ آنے والے دنوں میں ایسے واقعات پیش آسکتے ہیں جو ان دونوں کے لیے ناپسندیدہ اور ناقابلِ قبول ہوں۔
SEE ALSO: افغانستان کے بڑے جنگجو سردار جو طالبان کے لیے خطرہ بن سکتے ہیںخیال رہے کہ اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے سلامتی کونسل کی صدارت کے لیے بھارت کی نام زدگی پر کہا تھا کہ پاکستان اس بات پر پوری توجہ سے نظر رکھے گا کہ بھارت سلامتی کونسل کے توسط سے پاکستان کے اصل مفادات کو نقصان نہ پہنچا سکے۔
انھوں نے پاکستان کے انگریزی اخبار ’ڈان‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت یقینی طور پر صدارت کے منصب کو دہشت گردی اور اقوامِ متحدہ میں اصلاحات سمیت دیگر امور پر اپنے مؤقف کو فروغ دینے کی کوشش کرے گا۔
جب کہ پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان یہ امید کرتا ہے کہ بھارت سلامتی کونسل کی صدارت کے سلسلے میں متعقلہ قوانین اور ضابطوں کی پاس داری کرے گا۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اب جب کہ بھارت ایک ماہ کے لیے سلامتی کونسل کا صدر نامزد ہوا ہے تو ہم اسے یاد دلانا چاہیں گے کہ وہ جموں و کشمیر کے سلسلے میں سلامتی کونسل کی قراردادوں کے نفاذ کی اپنی قانونی ذمہ داری پوری کرے۔