کئی دہائیوں سے بد امنی، انتشار اور افراتفری کے شکار افغانستان میں مسلح گروہوں اور جنگجو کمانڈروں کا اثر و رسوخ رہا ہے جو افغانستان میں آباد مختلف نسلی گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
یہ جنگجو سردار سوویت یونین کے خلاف لڑائی کے بعد نوے کی دہائی میں افغانستان میں ہونے والی خانہ جنگی کے دوران آپس میں لڑنے کے علاوہ طالبان کے اثر و نفوذ کے دوران بھی متحرک رہے۔
افغانستان میں طالبان کی دوبارہ پیش قدمی اور کئی اہم علاقوں سے افغان فورسز کی پسپائی کے بعد طالبان کے خلاف افغان جنگجو سرداروں کا کردار مزید اہمیت اختیار کر گیا ہے۔
افغان حکام بھی ایک بار پھر طالبان کے خلاف ملیشیاؤں کو متحرک کرنے کے بیانات دے رہے ہیں۔
افغان صوبے ہرات کے معروف جنگجو سردار محمد اسماعیل خان اپنے صوبے میں افغان فورسز کے ہمراہ گزشتہ کئی روز سے طالبان کے خلاف برسرِ پیکار ہیں۔ جیسے جیسے طالبان پیش قدمی کر رہے ہیں، دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے جنگجو سردار بھی مزاحمت کے لیے پر تول رہے ہیں۔
افغانستان کے مختلف علاقوں میں اثر و رسوخ رکھنے والے یہ سردار پشتون، ازبک، ہزارہ اور تاجک النسل افغان شہریوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرتے ہیں۔
یوں تو نوے کی دہائی میں طالبان کے خلاف مختلف جنگجو گروپ برسرِ پیکار رہے، تاہم امریکہ کے حمایت یافتہ شمالی اتحاد نے صوبہ بدخشاں، تخار، جوزجان اور پنج شیر میں طالبان کے قدم نہیں جمنے دیے تھے۔ لیکن اب اطلاعات کے مطابق طالبان ان علاقوں میں بھی تیزی سے پیش قدمی کر رہے ہیں۔
نوے کی دہائی میں سرگرم شمالی اتحاد میں احمد شاہ مسعود، عبدالرشید دوستم اور جنرل قاسم فہیم جیسے جنگجو کمانڈر شامل تھے۔
جنگ و جدل، تشدد اور سیاسی عدم استحکام سے عبارت افغانستان کی حالیہ تاریخ میں کون کون سے جنگجو سردار کن کن علاقوں میں سرگرم رہے اور موجودہ صورتِ حال میں ان کا کردار کیا ہوسکتا ہے، آئیے جانتے ہیں۔
1۔ مارشل عبدالرشید دوستم
چونسٹھ سالہ رشید دوستم کا اصل نام عبد الرشید ہے۔ دوستم کا تعلق ازبک قبیلے کے ایک غریب گھرانے سے تھا۔ وہ اپنے ابتدائی ایام میں سرکاری اسکولوں میں حصولِ تعلیم کے ساتھ ساتھ شبرغان اور مزار شریف کے بازاروں میں محنت مزدوری بھی کرتے تھے۔
اپنے غیض و غضب اور افغانستان کی طویل جنگوں کے دوران متحرک رہنے والے عبدالرشید دوستم کو حال ہی میں مارشل کا اعزازی عہدہ دیا گیا ہے۔
یوں سابق وزیرِ دفاع احمد شاہ مسعود اور ان کے جانشین قاسم فہیم کے بعد رشید دوستم 'مارشل' کے عہدے پر فائز ہونے والے افغانستان کے تیسرے شخص بن گئے ہیں۔
یہ عہدہ ملنے سے قبل عبدالرشید دوستم کو جنرل عبدالرشید دوستم کے نام سے جانا جاتا تھا۔
نائن الیون سے قبل عبدالرشید دوستم طالبان کے خلاف لڑتے رہے لیکن نائن الیون کے بعد وہ افغان سیاست میں بھی متحرک ہوئے اور سابق افغان صدر حامد کرزئی کی کابینہ میں نائب وزیرِ دفاع بھی رہے۔
وہ 2014 سے 2020 کے دوران اشرف غنی کے دورِ حکومت میں افغانستان کے نائب صدر بھی رہے۔
افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف یا اس کے خلاف برسرِ پیکار رہنے والے مجاہدین کے خلاف لڑنے والے کئی جنگجوؤں نے خود کو خود ساختہ کمانڈر یا جنرل کہلانا شروع کر دیا تھا۔ یہ لوگ باضابطہ طور پر کسی بھی فوجی اکیڈمی سے فارغ التحصیل نہیں تھے۔
افغانستان میں آئے روز کی لڑائیوں کے باعث عبدالرشید دوستم نے بھی ازبک النسل افغان عوام میں اپنا اثر و نفوذ قائم کیا۔
اسی اور نوے کی دہائی میں عبدالرشید دوستم اور ان کے حامی ہزاروں جنگجوؤں کا ٹھکانہ مزار شریف تھا۔ تاہم بعد ازاں افغان صوبے جوزجان کو انہوں نے اپنا مرکز بنا لیا۔
اُنہیں طالبان کا کٹر مخالف سمجھا جاتا ہے اور اس وقت وہ ترکی میں مقیم ہیں۔
افغان ٹی وی 'طلوع' نیوز کے مطابق حال ہی میں ایک بیان میں دوستم نے کہا تھا کہ وہ بہت جلد صوبے جوزجان آ کر طالبان کا شمالی افغانستان میں مقابلہ کریں گے۔
2۔ گلبدین حکمت یار
افغان صوبے قندوز سے تعلق رکھنے والے افغانستان کے سابق وزیرِ اعظم اور حزبِ اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار کو افغانستان کی سیاست کا اہم کردار سمجھا جاتا ہے۔
حزبِ اسلامی اور طالبان میں یہ قدر مشترک ہے کہ دونوں افغانستان میں پشتونوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرتے ہیں۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ سوویت یونین کے خلاف جنگ میں حکمت یار کی حزبِ اسلامی کا مرکزی کردار تھا اور اسی لیے انہیں بھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے لاکھوں ڈالرز کا اسلحہ دیا تھا۔ حکمت یار کو پاکستان اور سعودی عرب کی بھی حمایت حاصل تھی۔
حکمت یار نے افغانستان کی سیاست میں بھی فعال کردار ادا کیا اور نوے کی دہائی میں دو مرتبہ افغانستان کے وزیرِ اعظم بنے۔
سوویت انخلا کے بعد حزبِ اسلامی کے جنگجو احمد شاہ مسعود اور عبدالرشید دوستم کے جنگجوؤں کے ساتھ بھی لڑتے رہے جب کہ طالبان نے جب 1996 میں کابل کی جانب پیش قدمی کی تو اُن کی زیادہ تر جھڑپیں بھی حزبِ اسلامی کے جنگجوؤں کے ساتھ ہی ہوئیں۔
کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد حکمت یار ایران چلے گئے تھے اور نائن الیون کے بعد اُنہوں نے افغان حکومت اور امریکہ کے خلاف 'جہاد' کا اعلان کیا تھا۔
البتہ اس دوران حزبِ اسلامی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی تھی اور اس کے کئی اہم رہنما اس وقت کے افغان صدر حامد کرزئی کی کابینہ کا حصہ بن گئے تھے۔
سن 2016 میں اُنہوں نے افغان حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا جس کے بعد حزبِ اسلامی نے حکومت مخالف کارروائیاں ترک کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔
معاہدے میں حزبِ اسلامی کے قید جنگجوؤں کی رہائی اور پاکستان کے مہاجر کیمپوں میں مقیم اُن کے ہزاروں حامیوں کی افغانستان واپسی بھی شامل تھی۔
معاہدے کے تحت حزبِ اسلامی کے جنگجوؤں کو افغان نیشنل فورسز میں شامل کرنے پر اتفاق ہوا تھا۔
افغانستان کی موجودہ صورتِ حال میں تاحال حکمت یار نے کسی فریق کی حمایت کا اعلان نہیں کیا ہے۔
3۔ عطا محمد نور
افغانستان کے صوبے بلخ کے سابق گورنر اور تاجک النسل عطا محمد نور کا زیادہ اثر و نفوذ مزار شریف میں ہے۔
نوے کی دہائی میں افغانستان میں ہونے والی خانہ جنگی میں وہ بھی متحرک رہے ہیں۔ اس لڑائی میں ہزاروں افغان شہری ہلاک ہو گئے تھے جس کے بعد طالبان نے افغانستان میں اپنے قدم جما لیے تھے۔
ستاون سالہ عطا محمد نور کی جماعت جمعیتِ اسلامی سے ہزاروں جنگجو وابستہ ہیں اور بعض ماہرین کے مطابق وہ صوبہ بلخ میں عملاً حکمران ہیں۔ لیکن اس لڑائی میں تاحال وہ متحرک نہیں ہوئے۔
حال ہی میں خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کو دیے گئے انٹرویو میں عطا محمد نور نے افغان حکومت اور فورسز کی ناقص حکمتِ عملی کو طالبان کی پیش قدمی کی وجہ قرار دیا تھا۔
اُنہوں نے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے ملک میں افراتفری کی راہ ہموار ہوئی۔ اُن کا کہنا تھا کہ وہ حیران ہیں کہ طالبان کو اتنی تیزی سے پیش قدمی کیسے کرنے دی گئی۔
عطا محمد نور کے بقول طالبان کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک نئی ملیشیا تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔
4۔ محمد اسماعیل خان
افغانستان کے صوبہ ہرات کے 'شیر' کے لقب سے پہچانے جانے والے تاجک النسل محمد اسماعیل خان اس وقت اپنے حامی جنگجوؤں کے ہمراہ افغان فورسز کے شانہ بشانہ ہرات میں طالبان کے خلاف نبرد آزما ہیں۔
سن 2001 میں امریکہ کے ساتھ مل کر طالبان کا تختہ اُلٹنے والے محمد اسماعیل خان کا شمار بھی افغانستان کے بڑے جنگجو سرداروں میں ہوتا ہے۔
اپنے ایک حالیہ بیان میں اسماعیل خان نے کہا تھا کہ وہ ہرات کے دفاع کے لیے تیار ہیں اور جو قوتیں ہرات کو تہس نہس کرنے کا خواب دیکھ رہی ہیں ان کا یہ خواب کبھی پورا نہیں ہو گا۔
چند روز قبل اسماعیل خان نے اپنے سیکڑوں مسلح ساتھیوں کے ہمراہ ہرات میں ایک ریلی بھی نکالی تھی۔
افغان ذرائع ابلاغ کے مطابق محمد اسماعیل خان نے دعویٰ کیا ہے کہ اُن کے سیکڑوں جنگجو مختلف چیک پوسٹس پر افغان فورسز کے شانہ بشانہ ہرات کے دفاع کے لیے موجود ہیں۔
5۔ عبدالرسول سیاف
افغان صوبے کابل کے شہر پغمان میں پیدا ہونے والے عبدالرسول سیاف کا شمار افغانستان کے بزرگ سرداروں میں ہوتا ہے۔
وہ اسی کی دہائی میں اتحاد الاسلامی نامی ملیشیا کے نام سے سوویت یونین کے خلاف مزاحمت میں شریک رہے۔
عبدالرسول سیاف کے سعودی شاہی خاندان اور پاکستان کے ساتھ بھی مراسم رہے ہیں جب کہ وہ مختلف اوقات میں سعودی عرب اور پاکستان بھی آتے جاتے رہے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ 1996 میں سوڈان سے بے دخل کیے جانے پر اسامہ بن لادن کو سب سے پہلے عبدالرسول سیاف نے افغانستان میں پناہ کی پیش کش کی تھی۔
وہ افغانستان کی سیاست میں بھی متحرک رہے ہیں اور 2003 میں افغان لویہ جرگہ کے رُکن بننے کے علاوہ 2005 میں افغان پارلیمنٹ کے رُکن بھی منتخب ہوئے۔
6۔ احمد مسعود
افغانستان میں امریکہ کے اتحادی اور طالبان مخالف شمالی اتحاد کے مقتول رہنما تاجک النسل احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود نے بھی دو برس قبل طالبان کے خلاف سیاسی اتحاد بنانے کا اعلان کیا تھا۔
احمد شاہ مسعود کو نو ستمبر 2001 میں افغان صوبے تخار میں قتل کر دیا گیا تھا۔
اُن کے صاحبزادے 32 سالہ احمد مسعود طالبان مخالف گروہوں کو مستحکم کرنا چاہتے ہیں اور متشدد جنگجوؤں کو مذہبی انتہا پسندی سے روکنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
لندن سے تعلیم یافتہ احمد مسعود انتہا پسندوں کو سیاسی طور پر قائل کرنے اور ضرورت پڑنے پر عسکری وسائل استعمال کرنے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔
سن 2019 میں خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کو دیے گئے انٹرویو میں احمد مسعود کا کہنا تھا کہ وہ دعاگو ہیں کہ آئندہ افغانستان کو کسی خونریزی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ان کے بقول "اگر ایسا ہوا تو ان جیسے ہزاروں نوجوان لڑنے کے لیے تیار ہیں۔"
7۔ عبد الغنی علی پور عرف کمانڈر شمشیر
افغان صوبے میدان وردک کے شہر بہسود سے تعلق رکھنے والے شیعہ ہزارہ ملیشیا کمانڈر عبدالغنی علی پور کمانڈر شمشیر کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔
افغان نشریاتی ادارے 'طلوع' نیوز کے مطابق عبدالغنی علی پور کے پاس لگ بھگ دو ہزار جنگجو ہیں۔
اپنے مختلف انٹرویوز میں عبدالغنی علی پور خود کو حزبِ وحدتِ اسلامی کے عبدالعلی مزاری گروپ کا کمانڈر کہتے رہے ہیں۔
سن 2004 میں افغان حکومت نے جب ملیشیاز کو غیر مسلح کرنے کا سلسلہ شروع کیا تو عبدالغنی علی پور ہتھیار ڈال کر کابل، بہسود روٹ پر بطور ڈرائیور کام کرتے رہے۔
البتہ 2014 میں بہسود میں طالبان کی کارروائیوں کے بعد اُنہوں نے دوبارہ اپنا مزاحمتی گروپ منظم کیا۔
طالبان کی پیش قدمی سے قبل مختلف اوقات میں عبدالغنی علی پور کی ملیشیا کی افغان فورسز سے بھی جھڑپیں ہوتی رہی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان کے معروضی حالات اور تاریخ یہ بتاتی ہے کہ یہاں مختلف ادوار میں جنگجو کمانڈرز متحرک رہے ہیں اور انہی میں سے ہی بعض سیاسی عمل کا حصہ بھی بنتے رہے ہیں۔
البتہ طالبان کی پیش قدمی کے تناظر میں ان جنگجوؤں کا کردار اہم ہو گا کیوں کہ طالبان تاحال بڑے صوبوں کے دارالحکومتوں پر قبضہ نہیں کر سکے ہیں اور بعض ماہرین کے بقول جب طالبان ان شہروں کی طرف بڑھیں گے تو یہی وہ موقع ہو گا جب یہ جنگجو سردار اپنے حامیوں کے ہمراہ میدان میں آ سکتے ہیں۔
اس آرٹیکل کے لیے بعض معلومات جریدے 'دی ویک' اور افغان نشریاتی ادارے 'طلوع' نیوز سے لی گئی ہیں۔