|
امریکہ نے بدھ کے روز ایک اسرائیلی غیر سرکاری تنظیم اور مغربی کنارے کےایک یہودی سیکیورٹی اہلکار پر پابندیاں نافذ کر دی ہیں، جو واشنگٹن کی جانب سے یہودی آباد کاروں کو ،جن پر وہ فلسطینیوں کے خلاف انتہا پسند تشدد کا الزام عائد کرتا ہے،سزاد ینے کی تازہ ترین کوشش ہے ۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا کہ غیر منافع بخش تنظیم’ہاشومر یوش‘ پر جس کا کہنا ہے کہ وہ آباد کاروں کو تحفظ میں مدد کرتی ہے،پہلے ہی پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ یہ تنظیم مغربی کنارے کی ایک غیر مجاز بیرونی چوک کو مادی مدد فراہم کرتی ہے
ملر نے کہا کہ جس عہدےدار پر پابندی عائد کی گئی ہے وہ یہودی بستی اتزار کے سویلین سیکیورٹی رابطہ کار اتزاک لیوی فلنت ہیں جنہوں نے فروری میں مسلح آباد کاروں کے ایک گروپ کو سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کرنے اور فلسطینیوں کو اپنی زمینیں چھوڑنے پر مجبور کرنے کےلئے گشت میں مدد فراہم کی تھی ۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ، مغربی کنارے میں انتہا پسندآباد کاروں کا تشدد انتہائی شدید انسانی مصائب کو جنم دے رہا ہے ، اسرائیل کی سیکیورٹی کو نقصان پہنچا رہا ہے، اور خطے میں امن اور استحکام کے امکانات کو متاثر کر رہا ہے۔
SEE ALSO: اسرائیل:نئی یہودی بستی کی منظوری ہزاروں سال پرانی انسانی تاریخ کے شاہد فلسطینی گاؤں کے لیے خطرہ کیوں؟بیان میں اسرائیل سے مطالبہ کیاگیا کہ وہ تشدد کے ذمہ داروں کو جواب دہ ٹھہرائیں ۔ یہ پابندیاں ہدف بننے والوں کے امریکی اثاثے منجمد کردیں گی ، انہیں رسائی سے انکار کر دیں گی اور ان کےساتھ لین دین کرنے والے امریکیوں پر عمومی پابندیاں نافذ کر دیں گی۔
مغربی کنارے میں تشدد کی بنا پر یہ پابندیاں ایک ایکزیکٹیو آرڈر کے تحت عائد کی جائیں گی جس پر صدر جو بائیڈن نے فروری میں دستخط کیے تھے۔ اس حکم نا مے کو فلسطینی عسکریت پسند گروپ کے ساتھ ساتھ یہودی آباد کاروں اور ان کی مدد کرنے والوں پر پابندیاں عائد کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جا چکا ہے۔
SEE ALSO: مغربی کنارہ: فلسطینی گاؤں پر حملے میں 23 سالہ نوجوان ہلاک مکانات اور کاریں نذر آتش۔امریکہ کی مذمتاسرائیل کی حمایت کرنے والے گروپس اور امریکہ اور اسرائیل کی دہری شہریت رکھنے والوں نے اس حکم نامے کو چیلنج کرتے ہوئے مقدمہ دائر کیا ہے جس میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ یہ حکم نامہ عمومی طور پر ہر اس شخص کو سزا دیتا ہے جو ایک آزاد فلسطینی ریاست کی تشکیل کا مخالف ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے بدھ کے روز کہا کہ اسرائیل اپنے شہریوں پر پابندیوں کے نفاذ کو انتہائی سنجیدگی سے لیتا ہے اور امریکہ کے ساتھ اسپر گفت و شنید ہو گی ۔
سال 1967 میں مشرق وسطیٰ جنگ کے بعد سے اسرائیل نے دریائے اردن کےمغربی کنارے پر قبضہ کر لیا ہےجسے فلسطینی اپنی ایک آزاد ریاست کا مرکز بنانا چاہتے ہیں۔ اسرائیل وہاں بہت سی یہودی بستیاں تعمیر کر چکا ہے جنہیں بیشتر ملک غیر قانونی قرار دیتے ہیں۔ اسرائیل اس سے اختلاف کرتا ہے اور اس زمین سے اپنے تعلق کے لیے تاریخی اور مذہبی حوالے دیتا ہے ۔
SEE ALSO: اسرائیل:نئی یہودی بستی کی منظوری ہزاروں سال پرانی انسانی تاریخ کے شاہد فلسطینی گاؤں کے لیے خطرہ کیوں؟بائیڈن انتظامیہ نے اس مسئلے پر امریکہ کی ایک پرانی پالیسی کی واپسی کا سگنل دیتے ہوئے،جسے ڈونلڈ ٹرمپ کی سابق انتظامیہ نے منسوخ کر دیا تھا ، فروری میں کہا تھا کہ یہ بستیاں بین الاقوامی قانون سے متصادم ہیں۔
نیتن ییاہو کے کٹر قوم پرست وزیر خزانہ بیزلل اسموٹرچ اور قومی سلامتی کے وزیر اتمار بن گیور نے آباد کاروں کے خلاف اس سے قبل کی پابندیوں کی مذمت کی تھی ۔
اسرائیلی وزیرِ خارجہ اسرائیل کاٹز نے 'ایکس' پر اپنے بیان میں کہا کہ مغربی کنارے میں بھی دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنا اسی طرح ضروری ہے جس طرح وہ غزہ میں نمٹ رہا ہے۔
SEE ALSO: اسرائیلی وزیر کا الاقصیٰ احاطے کا دورہ؛ امریکہ، اقوامِ متحدہ اور عرب ملکوں کی مذمتغزہ میں حماس کے ساتھ جاری لڑائی کے دوران اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے میں بھی کارروائیاں کی جاتی رہی ہیں۔
مغربی کنارے میں اکتوبر 2023 کے بعد اسرائیلی فوج اور آبادکاروں کی کارروائیوں میں 640 فلسطینی جان کی بازی ہار چکے ہیں جب کہ فلسطینیوں کے حملے میں کم از کم 19 اسرائیلی ہلاک ہو چکے ہیں
اس رپورٹ کا مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے۔