کرونا وائرس امریکی معاشرے اور معیشت پر ہر طرح سے اثرانداز ہوا ہے۔ اس مہلک وباسے سب سے زیادہ اموات امریکہ میں ہوئیں۔ یہاں سب سے زیادہ کاروباروں کو نقصان پہنچا اور سب سے زیادہ لوگ بے روزگار ہوئے، مگر اس کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ اپنی ہیت تبدیل کرنے والے وائرس نے امریکیوں کی تمباکو نوشی کی عادت ترک کرانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق اس وقت امریکہ میں تمباکو نوشی کی شرح اپنی کم ترین سطح پر ہے۔
کرونا وبا کے پہلے سال میں امریکہ نے جو تبدیلی دیکھی وہ یہ تھی کہ کثرت شراب نوشی اور منشیات کے استعمال میں اضافہ جب کہ تمباکو نوشی میں کمی ہوئی، جس کی متعدد معاشرتی اور معاشی وجوہات ہیں۔
امراض پر کنٹرول اور بچاؤ کے امریکی ادارے سی ڈی سی کی جانب سے جمعرات کو جاری ہونے والے ایک سروے میں بتایا گیا ہے کہ 2020 کے دوران ہر 8 میں سے ایک بالغ امریکی سگریٹ پی رہا تھا، جو امریکہ میں تمباکو نوشی کی کم ترین شرح ہے۔ سروے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2020 میں الیکٹرانک سگریٹ پینے والوں کی تعداد میں بھی کمی ہوئی ۔
سی ڈی سی کا کہنا ہے کہ تمباکو نوشی میں کمی کے رجحان کا سہرا صحت عامہ کے اداروں کی جانب سے اس سلسلے میں چلائی جانے والی مہمات کے سر ہے۔ تاہم ماہرین اس تجزیے سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ سگریٹ نوشی میں ریکارڈ کمی میں کئی عوامل کا ہاتھ ہے جن میں سگریٹوں کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے نے اہم کردار ادا کیاہے۔2020 کے دوران سگریٹ بنانے والی کمپنیوں نے اپنی مصنوعات کی قمیتوں میں چار بار اضافہ کیا۔ اس کے علاوہ کرونا کے باعث زندگی گزارنے کے انداز میں ہونے والی تبدیلیاں بھی سگریٹ نوشی کے زوال کا سبب بنیں۔
ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ انٹرویو میں شامل افراد میں سے کچھ نے سچ بتانے سے احتراز کیا ہو، یا ممکن ہے کہ اس سروے میں شامل 31 ہزار افراد میں اتفاقاً تمباکو پینے والوں کی تعداد کم ہو۔
SEE ALSO: دنیا بھر میں تمباکو نوشی میں مسلسل کمی؛ ’سالانہ 80 لاکھ اموات اب بھی ہو رہی ہیں‘اوہائیو سٹیٹ یونیورسٹی کی ایک تجزیہ میگن رابرٹس کہتی ہیں کہ تمباکو نوشی چھوڑنے والوں میں بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو عادی سگریٹ نوش نہیں تھے بلکہ صرف دوستوں کی محفل میں بیٹھ کر سگریٹ سلگاتے اور دھواں اگلتے تھے۔ جب عالمی وبانے یہ محفلیں ہی اجاڑ دیں تو انہیں مجلسی سگریٹ نوشی سے بھی چھٹکارہ مل گیا۔ کچھ لوگ ان رپورٹس کے بعد تمباکو نوشی سے تائب ہو گئے کہ تمباکو کا کش لگانے والوں میں کرونا وائرس کا ہدف بننے کا خطرہ تمباکو نہ پینے والوں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے۔وہ نوجوان جو والدین سے چھپ چھپا کر سگریٹ پیتے تھے، انہیں یہ شعل اس لیے ترک کرنا پڑا کیونکہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے سبب تمام افراد گھروں میں محصور ہو گئے تھے اور بزرگوں کے سامنے کش لگانا ممکن نہیں تھا۔
سی ڈی سی نے اس مطالعاتی جائزے کے لیے 31 ہزارکے لگ بھگ بالغ افراد سے انٹرویوز کیے۔جس سے انہیں معلوم ہوا کہ 2020 میں ان میں سے 19 فی صد افراد نے کسی نہ کسی طریقے سے تمباکو استعمال کیا تھا۔ جب کہ 2019 میں یہ شرح 21 فی صد تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
جائزہ رپورٹ کے مطابق تمباکو استعمال کرنے کے مختلف طریقوں، مثلاً سگریٹ، سگار ، پائپ اور دھواں خارج نہ کرنے والی تمباکو کی مصنوعات کے استعمال میں یکساں کمی ہوئی۔ الیکٹرانک سگریٹ کے استعمال کی شرح 2020 میں گھٹ کر 3 اعشاریہ 7 فی صد ہو گئی جو اس سے ایک سال قبل ساڑھے چار فی صد تھی۔اسی طرح روایتی سگریٹ پینے والے بالغوں کی شرح ایک سال پہلے کی سطح 14 فی صد سے گھٹ کر 2020 میں ساڑھے 12 فی صد رہ گئی۔
تمباکو کے استعمال کی تاریخ بہت پرانی ہے اور اس کی جڑیں تاریخ میں 5000 ہزار سال قبل از مسیح تک پھیلی ہوئی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تمباکو کی شروعات براعظم امریکہ سے ہوئی ۔ یہاں کے قدیم قبائل اپنی مذہبی تقریبات اور علاج معالجے کے لیے تمباکو کا استعمال کرتے تھےاور اسے ایک مقدس بوٹی سمجھتے تھے۔
16 صدی عیسوی میں جب کولمبس نے امریکہ دریافت کیا اور یورپی تاجروں کی آمد و رفت بڑھی تو تمباکو امریکہ سے نکل کر دنیا بھر میں پھیل گیا۔آج کرہ ارض کا شاید ہی کوئی حصہ ایسا ہو جہاں تمباکو کسی نہ کسی انداز میں استعمال نہ ہو رہا ہو۔
تمباکو صدیوں تک محفلوں کی رونق بنا رہا، مگر بعدازاں ہونے والی طبی تحقیقات سے پتہ چلا کہ یہ سانس اور پھیپھڑوں کے امراض، سرطان اور دل کی بیماریوں کا ایک اہم سبب ہے، جس کے بعد رفتہ رفتہ اس کے استعمال کی حوصلہ شکنی شروع ہوئی۔ آج دنیا کے اکثر ملکوں میں عوامی مقامات اور دفاتر میں تمباکو نوشی پر پابندی عائد ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ اور طیاروں میں بھی اس کی ممانعت ہے۔ حتی کہ اب تمباکو پینے والے زیادہ تر افراد اپنے گھروں میں سگریٹ نوشی سے احتراز کرتے ہیں اور جب انہیں تمباکو کی طلب ستاتی ہے تو وہ باہر نکل کر سگریٹ کا دھواں اڑاتے ہیں۔
ورلڈ پاپولیشن ریویو کے 2018 کے عالمی اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ تمباکو نوشی کرنے والے مرد میانمار میں تھے جو کل آبادی کا لگ بھگ 70 فی صد تھے۔ بنگلہ دیش میں یہ شرح 61 فی صد، روس میں 41 فی صد، بھارت میں 42 فی صد، چین میں 48 فی صد، پاکستان میں 34 فی صد اور امریکہ میں 31 فی صد تھی۔
سی ڈی سی کے سروے میں بتایا گیا ہے کہ 1965 میں امریکہ میں تمباکو نوشی کرنے والوں کی شرح 42 فی صد تھی جس میں مسلسل کمی ہوتی رہی ہے، جس کی وجہ صحت کے متعلق شعور و آگہی میں اضافہ، ٹیکسوں اور پابندیوں کے ذریعے اس کی حوصلہ شکنی ہے۔