عراق سے امریکی فوجوں کی واپسی کا اعلان کرتے ہوئے، صدر اوباما نے یہ بات واضح کی کہ اگلی باری افغانستان کی ہے ۔ انھوں نے کہا کہ ’’ اگلے سال ہم افغانوں کو ذمہ داری منتقل کرنے کا عمل شروع کریں گے۔ ہماری فوجوں کی واپسی کی رفتار کا تعین زمینی حالات پر ہوگا اور افغانستان کے لیے ہماری مدد جاری رہے گی۔ لیکن اس بارے میں کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہیئے کہ تبدیلی کا عمل شروع ہو جائے گا کیوں کہ غیر معینہ مدت کی جنگ نہ ہمارے مفادات کے لیے اور نہ افغان عوام کے مفادات کے لیے مفید ہے‘‘۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ عراق سے امریکی فوجوں کی واپسی سے ایران، پاکستان اور علاقے کے دوسرے ملکوں پر یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ امریکہ اپنی فوجیں نکالنے میں سنجیدہ ہے۔ یو ایس آرمی وار کالج کےلیری گڈسن کہتے ہیں کہ اس اقدام کے اثرات کے بارے میں سب سے زیادہ فکر افغانستان کے صدر حامد کرزئی کو ہے’’علاقے کے تمام ملکوں کی سوچ میں کچھ تبدیلی آئی ہے، لیکن سب سے زیادہ گھبراہٹ کرزئی کو ہوگی۔ ان کی جان واقعی سولی پر چڑھی ہو گی اگر امریکہ اور نیٹو کی فورسز آج واپس چلی جاتی ہیں۔ کم از کم میں تو یہی سمجھتا ہوں‘‘۔
صدر کرزئی نے حال ہی میں افغانستان کا دورہ کرنے والے امریکی کانگریس کے ایک وفد سے کہا کہ امریکی فوجوں کی واپسی کی تاریخ کے اعلان سے طالبان کے حوصلے بلند ہو گئے ہیں۔ لیری گڈسن کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ مسٹر کرزئی امریکی فوجوں کو صدر اوباما اور ان کے مشیروں کے منصوبے کے بر عکس مزید کچھ مدت کے لیے افغانستان میں روکنا چاہتے ہوں۔
امریکہ اور کرزئی کے درمیان تعلقات میں خاصے اتار چڑھاؤ آئے ہیں، اور خاص طور سے حالیہ دنوں میں کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ کرزئی نے امریکہ پر سخت تنقید کی ہے، خاص طور سے سویلین اموات پر، امریکی عہدے دار ان پر مسلسل دباؤ ڈالتے رہے ہیں کہ وہ اپنی حکومت سے کرپشن ختم کریں۔
واشنگٹن میں سینٹرفار امریکن پراگریس کے تجزیہ کارBrian Katulis کہتے ہیں کہ صدر کرزئی کی جانب امریکہ کا رویہ یکساں نہیں رہا ہے ’’صدر بُش بلکہ صدر اوباما کے دورمیں بھی ہم نے مستقل مزاجی سے کام نہیں لیا۔ ایک لمحے ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہم ان کی سخت سرزنش کر رہے ہیں اور دوسرے لمحے ہم یہاں واشنگٹن میں ہم ان کا شاندار استقبال کر رہے ہوتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ان میں سے کسی چیز کا کوئی اثر نہیں ہو رہا ہے‘‘۔
افغانستان اورعراق کی جنگیں بنیادی طور سے بالکل مختلف جنگیں ہیں لیکن مجموعی حکمت عملی ایک جیسی ہے، یعنی ملکی فوجوں کو اس حد تک مضبوط بنانا کہ وہ سیکورٹی کے فرائض خود سنبھالنے کے قابل ہو جائیں۔
اس طرح امریکی فوجوں کے لیے گھر واپس جانا ممکن ہو جائے گا۔ لیکن بہت سے تجزیہ کاروں نے تشویش کا اظہار کیا ہے کہ افغان سکیورٹی فورسز خود اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے قابل ہوسکیں گی یا نہیں۔سرحد پار پاکستان میں طالبان کے لیے پناہ گاہیں مسلسل پریشان کُن مسئلہ بنی ہوئی ہیں۔
تجزیہ کار Brian Katulis کہتے ہیں کہ پاکستان کے معاملے کو اوباما انتظامیہ نے جس طرح حل کیا ہے اسے اوباما انتظامیہ کی کامیابی کہا جائے گا۔ 2007ء میں امریکہ اور پاکستان کے تعلقات نازک مرحلے میں داخل ہو گئے تھے،لیکن اس کے بعد سے پاکستان نے عسکریت پسندوں کے خلاف زیادہ سرگرمی سے کارروائی کی ہے۔ ’’پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف کہیں زیادہ جارحانہ رویہ اختیار کیا ہے۔ بہت سے پاکستانی لیڈروں کے ساتھ رابطے قائم کیے گئے ہیں اور ان کے رویے میں تبدیلی آئی ہے۔ یہ تبدیلی سو فیصد تو نہیں ہے لیکن وہ صحیح سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ میرے خیال میں افغانستان میں ہمارے مشن کی تکمیل کے لیے اہم بات یہی ہے کہ پاکستان جیسے ملک زیادہ ذمہ دارانہ رول ادا کریں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم نے اس سمت میں کچھ اچھے اقدامات کیے ہیں‘‘۔
لیکن طالبان جنگجوؤں نے بین الاقوامی فورسز پر اپنے حملوں میں کمی نہیں کی ہے، اگرچہ آنے والے سردی کے موسم میں، ان کی سرگرمیاں کچھ ٹھنڈی پڑ جائیں گی۔ بہت سے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ طالبان کرزئی حکومت پر اس وقت تک اپنا دباؤ برقرار رکھنا چاہتے ہیں جب تک کہ امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان سے واپس چلے نہیں جاتے۔ اس کے بعد وہ صدر کرزئی سے یا اس وقت جو کوئی بھی افغان حکومت میں برسرِ اقتدار ہو گا، اس سے کوئی سیاسی سمجھوتہ کرنا چاہیں گے۔