واشنگٹن میں بعض عہدیداروں کی جانب سے ان خدشات کے اظہار کے باوجود کہ افغانستان ایک بار پھر دہشت گردوں کی پناہ گاہ بن سکتا ہے، امریکی محکمہ دفاع اور انٹیلی جنس کے حالیہ جائزے بتاتے ہیں کہ داعش اور القاعدہ جیسے گروپ افغانستان کو مغربی ممالک کے خلاف استعمال کرنے کے لیےکسی جلدی میں نہیں ، لیکن ایک دوسرے سے مختلف حکمت عملی پر کاربند رہتے ہوئے اپنا حلقہ اثر بڑھانے میں مصروف ہیں۔
امریکی محکمہ دفاع کے انسپکٹر جنرل نے حال ہی میں ایک جائزہ رپورٹ جاری کی ہے، جسے امریکی سینٹرل کمانڈ، ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی اور دیگر اداروں نے مل کر مرتب کیا ہے۔رپورٹ میں جائزہ لیا گیا ہے کہ چھ ماہ قبل امریکی انخلا کے بعد افغانستان میں ممکنہ طور پر کیا نئے خطرات پیدا ہوئے ہیں۔
رپورٹ کے مندرجات پینٹاگون کے اعلیٰ حکام کی طرف سے اکتوبرمیں بیان کیے گئے ان خدشات کے برعکس ہیں جن میں بتایا گیا تھا کہ داعش خراسان چھ ماہ سے بھی کم عرصے میں مغرب اور امریکہ پر حملہ کرسکتی ہے۔ اس وقت حکام نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا تھا کہ القاعدہ ایک سال تک حملے کرنے کی صلاحیت دوبارہ حاصل کر سکتی ہے۔
یاد رہے کہ امریکی محکمہ دفاع کے انڈر سیکرٹری برائے پالیسی، نکولن کاہل، نے اس وقت سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کو بتایا تھا کہ القاعدہ اورداعش دونوں گروپ بیرونی کارروائیاں کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
البتہ نئے تجزیوں میں اس بات سے اتفاق کیا گیا ہے کہ دونوں دہشت گرد گروپ حملوں کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن ان کے رہنماؤں کی ترجیحات مختلف ہیں۔مثال کے طور پر داعش خراساں اس وقت کافی طویل فاصلے پر موجود دشمن کے اہداف پر حملوں کے بجائے افغانستان میں اپنی حمایت میں اضافہ کرنے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال نومبر کے مہینے میں داعش خراساں نے کابل کے ایک فوجی ہسپتال میں اور طالبان کی چیک پوسٹوں پر کئی حملے کیے جن میں 25 افراد ہلاک جبکہ 50 سے زائد زخمی ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق داعش کی جانب سے اہم تنصیبات کو نشانہ بنانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ طالبان بنیادی سلامتی یقینی نہیں بنا سکے۔ داعش خراساں نے مقامی آبادی کے ساتھ مل کر طالبان کو غیرقانونی ثابت کرنے کا کام کیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ڈیفینس انٹیلی جنس کے تجزیے کا حوالہ دیتے ہوئے، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ داعش نے طالبان مخالف جذبات اور حکومتی عملداری میں خامیوں اور حکومت کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نئی بھرتیا ں کی ہیں۔
رپورٹ میں انتباہ کیا گیا ہے کہ یہ گروپ "وسطی اور جنوبی ایشیا کے ممالک کے جنگجوؤں کے ساتھ روابط برقرار رکھے ہوئے ہے، جو ممکنہ طور پر اس گروپ کو ان ممالک میں امریکی مفادات کے لیے خطرہ بنا رہا ہے۔"
اس ماہ اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں خبردار کیا گیاہے کہ امریکی انخلا کے بعد سے اب تک داعش نے اپنی تعداد دوگنی کردی ہے، اور اب ان کی تعداد چار ہزار ہے۔ جنگجوؤں کا یہ گروپ افغانستان کے مشرق میں محدود علاقے پر کنٹرول بھی رکھتا ہے۔
طالبان نے داعش خراسان کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کے لیے متعدد کوششیں کی ہیں۔ کئی تجزیہ کاروں نے توجہ دلائی ہے کہ طالبان کو مختلف کارروائیوں میں محدود کامیابی ملی ہے۔
القاعدہ کے بارے میں اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دہشت گرد گروپ کی افغانستان میں ایک طویل تاریخ ہے اور امریکی انخلا کے بعد اسے نمایاں فروغ ملا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان گروپ میں القاعدہ کے کچھ حامی طالبان حکومت میں اہم عہدوں پرفائز ہیں۔
دوسری طرف انسپکٹر جنرل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی ایجنسیوں کا خیال ہے کہ طالبان اب بھی القاعدہ کے اہلکاروں کو کسی حد تک الگ تھلگ رکھے ہوئے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
امریکی سینٹ کام اور ڈی آئی اے کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان نے القاعدہ کے ارکان کو اپنی نام نہاد عبوری حکومت میں اہم کردار ادا کرنے کی اجازت نہیں دی اور طالبان ممکنہ طور پر القاعدہ کو امریکہ پر حملے کرنے سے روکیں گے کیوںکہ وہ اپنی حکومت کے لیے بین الااقوامی توثیق چاہتے ہیں۔
لیکن امریکی حکام کا یہ بھی اندازہ ہے کہ طالبان رہنما دوحہ معاہدے کے ایک حصے کے طور پر واشنگٹن کو یقین دہانیوں کے باوجود القاعدہ کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے کی جلدی میں نہیں ہیں۔
انسپکٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق طالبان ممکنہ طور پر افغانستان میں القاعدہ کے عناصر کو ایک کم پروفائل برقرار رکھنے کی اجازت دیں گے، تاکہ ان کے دیرینہ تعلقات برقرار رہیں۔ مزید یہ کہ طالبان کسی ایسے اقدم سے اپنے اندر موجود انتہائی عسکریت پسند اسلامی عناصر کوناراض کرنے سے گریز کریں گے۔
اقوام متحدہ کے حکام کاخیال ہے کہ القاعدہ کی اندرونی صفوں کے کئی درجن اہلکار افغانستان میں مقیم ہیں، جن میں گروپ کے سربراہ ایمن الظواہری بھی شامل ہیں۔
برصغیر میں فعال القاعدہ کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ افغانستان میں اس کے 400 جنگجو موجود ہیں۔ ان میں سے کچھ طالبان کی اکائیوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔