کیا افغانستان کی نگرانی پر واشنگٹن اور ماسکو میں تعاون کا امکان ہے؟

جنیوا میں امریکی صدر جو بائیڈن اور روسی صدر پوٹن کے درمیان ملاقات میں فوجی انخلا کے بعد افغانستان کی صورت حال پر بھی بات ہوئی تھی۔ 16 جون 2021

افغانستان سے امریکی اور نیٹو فورسز کی واپسی اور طالبان کی پے در پے کامیابیوں کی خبروں نے ماسکو میں اپنے وسطی ایشیائی اتحادیوں کی سیکیورٹی کے لیے خدشات میں اضافہ کر دیا ہے۔ افغانستان کے تمام ہمسایہ ممالک نے، جن میں تاجکستان بھی شامل ہے، اپنی سرحدوں پر سیکیورٹی میں اضافہ کر دیا ہے تاکہ تشدد اور عدم استحکام ان کی سرحدوں کے اندر داخل نہ ہو جائے۔

روس کے ایک اخبار کومرسانٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں صورت حال کے متعلق آگہی رکھنے والے ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ روس کے صدر ولادی میر پوٹن اور امریکی صدر جو بائیڈن نے 16 جون کو جنیوا میں ہونے والی اپنی ملاقات میں افغان تنازعے سے متعلق معلومات شیئر کرنے کے امکان پر گفتگو کی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس بات چیت میں پوٹن کی جانب سے تاجکستان اور قزاقستان میں موجود روسی اڈوں کو استعمال کرنے کی تجویز بھی شامل تھی تاکہ ڈرونز کے ذریعے معلومات اکھٹی کر کے امریکہ کے حوالے کی جا سکیں۔ ذرائع میں سے ایک کا کہنا ہے کہ امریکہ نے ابھی تک اس تجویز کا کوئی واضح جواب نہیں دیا۔

اخبار نے اس سلسلے میں افغانستان کے بارے میں کسی دوسرے ممکنہ تعاون کے متعلق کچھ نہیں بتایا۔

امریکہ 31 اگست تک افغانستان سے اپنے تمام فوجی دستے نکالنا چاہتا ہے۔

اس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے روس کے صدارتی پریس سیکرٹری دمیتری پیکوف نے آر سی بی کو تصدیق کی کہ افغانستان کی صورت حال دونوں سربراہوں کی جون میں ہونے والی ملاقات کے ایجنڈے میں شامل تھی۔ تاہم، انہوں نے اس بارے میں کچھ نہیں بتایاکہ آیا اس ملاقات میں وسط ایشیائی ملکوں میں روسی فوجی اڈوں پر بھی بات ہوئی۔

افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے بھی اس رپورٹ پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے۔

تاجکستان میں جو افغانستان کا شمالی ہمسایہ ہے، روس کی بڑے پیمانے پر فوجی موجودگی ہے۔ یہاں روس کے تقریباً 7000 ہزار فوجی، سینکڑوں ٹینک، بکتر بند گاڑیاں، توپ خانہ، ڈرونز کی ایک بٹالین، میزائل شکن نظام ایس-300 اور ایک درجن سے زیادہ ہیلی کاپٹر اور لڑاکا طیارے موجود ہیں۔

تاجکستان کے ہمسایہ ملک قزاقستان کی اگرچہ افغانستان کے ساتھ کوئی سرحد نہیں ملتی، لیکن وہاں روس کی ایک بڑی فضائی طاقت موجود ہے، جس میں حملہ آور طیارے اور ایم آئی-8 قسم کے ہیلی کاپٹر اور ڈرونز شامل ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

افغانستان میں خانہ جنگی کے پڑوسی ممالک پر کیا اثرات ہوں گے؟

اس سے قبل روس کا میڈیا ادارہ سپوتنک یہ رپورٹ دے چکا ہے کہ امریکہ انخلا کے بعد افغانستان کے ہمسایہ ممالک میں، بالخصوص وسط ایشیائی ملک ازبکستان میں، جس کا روس کے ساتھ معاہدہ نہیں ہے، اپنے فوجی دستے اور فوجی ساز و سامان رکھنے کا خواہش مند ہے۔ تاہم، ازبکستان اسکی اجازت نہیں دے گا۔ اسی طرح امریکہ کا اتحادی پاکستان اپنے ملک میں امریکی فوجی رکھنے کو خارج از امکان قرار دے چکا ہے۔

گزشتہ ہفتے پینٹاگان کے ترجمان جان کربی نے کہا تھا کہ امریکہ اب بھی اپنے فوجی دستے رکھنے کے آپشنز تلاش کر رہا ہے، تاکہ افغانستان میں کسی ممکنہ خطرے کا مقابلہ کیا جا سکے۔

روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف یہ کہہ چکے ہیں کہ ماسکو افغان تنازعے کے حل کے لیے چین اور واشنگٹن کے ساتھ تعاون کرنے پر تیار ہے جس میں طالبان بھی شریک ہوں۔

اس ماہ طالبان کے ایک وفد نے ماسکو کا دورہ کیا تھا۔ انہوں نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ وہ وسط ایشیائی ہمسایہ ممالک کو کسی مداخلت کی اجازت نہیں دیں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ پوست کی کاشت کا قلع قمع کردیں گے اور داعش کو اپنے علاقے سے کام کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

طالبان کا دعویٰ ہے کہ افغانستان کا 85 فی صد علاقہ ان کے کنٹرول میں ہے۔

(اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات سپوتنک انٹرنیشنل سے لی گئی ہیں)