افغانستان میں لگ بھگ دو سال قبل اقتدار میں آنے کے بعد طالبان کی عائد پابندیوں سے انسانی حقوق کی صورتِ حال اور لوگوں کے معاشی حالات خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ طالبان حکومت بین الااقوامی سطح پر عدم قبولیت سے کم ہی متاثر نظر آتی ہے۔
امریکہ میں افغان امور پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان کے بگڑتے ہوئے حالات کی ایک بڑی وجہ وہاں حکمران طالبان کے حوالے سے عالمی سطح پر ایک مربوط اور حقیقت پسندانہ پالیسی کا نہ ہونا ہے۔
واشنگٹن ڈی سی کے مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ میں امریکہ اورجنوبی ایشیائی امور کے ماہرین نے ’کیا امریکہ کی طالبان پالیسی پر نظرِ ثانی کی ضرورت ہے؟‘ کے عنوان سے مذاکرے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کابل کے حکمران امریکہ اور عالمی برادری کی اپنی سخت گیر پالیسی کو نرم کرنے کے مطالبات کو نظر انداز کرتےرہے ہیں جب کہ اپنی سماجی پالیسیوں میں تبدیلی لا نے اور دہشت گرد تنظیموں سے تعلقات کو منقطع کرنے کے بجائے طالبان اس کے مخالف پالیسیاں اپنا رہے ہیں۔
ماہرین نے کہا کہ امریکہ اور عالمی برادری کے کئی ممالک نے افغانستان میں جاری غربت، صحت اور تعلیم کے باعث بننے والے انسانی المیے اور افغانستان سے سلامتی کے بارے میں خدشات کے پیشِ نظر طالبان کو طرزِ حکومت میں تبدیلی لانے کے لیے جو پابندیاں لگانے کا طریقہ اپنایا ہے ان کا کوئی خاطرخواہ نتیجہ سامنے نہیں آیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
سینٹر فار نیو امریکن سیکیورٹی تھنک ٹینک میں انڈو پیسیفک سیکیورٹی پروگرام کی ڈائریکٹر لیزا کرٹس کے مطابق افغانستان میں امن عامہ اور انسانی حقوق کی صورتِ حال دن بدن خراب ہو رہی ہے۔ خواتین کو صنفی امتیاز کا سامنا ہے جب کہ دہشت گرد گروہ داعش اور القاعدہ بھی فعال ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ طالبان کے ساتھ روابط کو ان پالیسیوں سے مشروط کرے جو وہ حقیقت کے روپ میں دیکھنا چاہتا ہے۔
مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ کے ماہر اور سی آئی اے کے سابقہ اہلکار ڈگلس لنڈن کہتے ہیں کہ وہ امریکی قومی سلامتی کے مفاد میں اہداف حاصل کرنے کے لیے امریکہ کو نہ صرف کابل بلکہ قندھار میں بھی سرکاری طور پر موجود دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ انسانی حقوق کی صورتِ حال اور خواتین کے ساتھ سلوک کے ساتھ ساتھ خطے میں طالبان کی عدم استحکام پیدا کرنے والی موجودگی جیسے معاملات سے نمٹا جا سکے۔
امریکہ کی افغانستان میں سفارت خانہ فعال کرنے کی تردید
دوسری جانب امریکہ کے محکمۂ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا ہے کہ امریکہ افغانستان میں اپنا سفارت خانہ بحال کرنے پر غور نہیں کر رہا ہے۔
ترجمان نے کہا ہے کہ امریکہ کچھ مسائل پر افغان طالبان کے ساتھ رابطے میں ہے اور بعض حالات میں یہ تعاون مفید رہا ہے۔
ساتھ ہی ترجمان میتھیو ملر نے کہا کہ امریکہ نے افغان طالبان پر واضح کیا ہے کہ اگروہ اپنی حکومت کے لیے بین الاقوامی سطح پر قبولیت چاہتے ہیں تو انہیں اہم اقدامات اٹھانے ہوں گے۔
ترجمان نے اس سلسلے میں خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ ناروا سلوک کا حوالہ دیا اور کہا کہ یہ سلوک بدستور جاری ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اگرچہ صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے افغان طالبان کے سن 2021 میں اقتدار پر قابض ہونے کے بعد افغانستان کے منجمند اثاثوں کو انسانی ہمدردی کے تحت ریلیز کرنے کی کچھ راہ نکالی ہے اور طالبان کے خوف سے ملک چھوڑنے والے بہت سے افغان لوگوں کو پناہ بھی دی ہے۔ تاہم واشنگٹن کی کچھ پالیسیوں میں خامیا ں ہیں اور انہیں دور کرنے کے لیے تبدیلی کی ضرورت ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ نے ایک رپورٹ میں نام لیے بغیر امریکی حکام کے حوالے سے کہا کہ افغان طالبان کے زیرانتظام مرکزی بینک کا امریکی امداد سے ہونے والا آڈٹ 3.5 بلین ڈالر کے سوئس ٹرسٹ فنڈ سے اثاثوں کی واپسی کے سلسلے میں اعتماد افزا نہیں رہا۔
رپورٹ کے مطابق وزارت خزانہ کے ایک اہلکار نے کہا کہ سوئس ٹرسٹ فنڈ سے رقوم کے جاری ہونے کے لیے افغانستان کے مرکزی بینک میں اصلاحات ضروری ہیں۔
خیال رہے کہ سوئس فنڈ کے ذریعے افغان رقوم کی واپسی کا مقصد ملک کو در پیش اقتصادی بحران کو کم کرنا ہے۔
حال ہی میں واشنگٹن ڈی سی کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسرحسن عباس نے اپنی تازہ ترین کتاب ’دی ریٹرن آف طالبان‘ میں زور دیا کہ افغانستان اور طالبان کو ماضی کے بجائے نئے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
مختلف عوامل کا جائزہ لیتے ہوئے حسن عباس کہتے ہیں کہ عالمی حالات میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے باوجود افغانستان کے اندرونی حالات اور جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کے سنگم پر واقع ملک کے حکمرانوں سے بات چیت کے ذریعے ہی امریکہ خطے میں اپنے مفادات کا دفاع کرسکتا ہے۔
ادھر خطے میں پاکستان کو بھی یہ معاملہ درپیش ہے کہ وہ طالبان سے آخر کیسے نمٹے کیوں کہ اسلام آباد کے افغانستان سے اقتصادی تعاون کے باوجود دہشت گرد تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے جنگجو افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے پاکستان پر متعدد حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
گزشتہ ہفتے بلوچستان کے علاقے ژوب میں بڑا حملہ کرکے ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں نے پاکستان کے کئی فوجیوں کو ہلاک کردیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
عارف انصار، جوکہ واشنگٹن ڈی سی میں پولی ٹیکٹ تھنک ٹینک کے محقق ہیں، کہتے ہیں کہ ایسا لگتاہے کہ دنیا ابھی تک افغان طالبان کے بارے میں کوئی حتمی پالیسی نہیں بناپائی اوراس ضمن میں ابہام کا شکار ہے۔
جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے تو عارف انصار کہتے ہیں کہ اس وقت واشنگٹن کی تمام تر توجہ چین اور انڈو پیسیفک خطے اور روس اور یوکرین کی جنگ پر مرکوز ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ افغانستان میں اب بھی امریکہ کے دہشت گردی سے نمٹنے کے مفادات ہیں کیوں کہ ملک میں کئی دہشت گرد تنظیمیں موجود ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ امریکہ کی انسانی حقوق کے حوالے سے پالیسی پر عمل میں تسلسل نظر نہیں آتا ہر چند کے اس نے بارہا افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی ہے۔
عارف انصار کہتے ہیں اگر خطے پر نظر دوڑائیں تو امریکہ بنگلہ دیش اور افغانستان کو انسانی حقوق کی پاسداری کا کہتا ہے لیکن بھارت میں خلاف ورزیوں کے خلاف کم ہی آواز اٹھائی جاتی ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکہ نے پاکستان میں سیاسی بحران کے دوران انسانی حقوق کا معاملہ بھرپور انداز میں نہیں اٹھایا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے عارف انصار کا کہنا تھا کہ دو سال قبل افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی کے باوجود امریکہ کے افغانستان میں مفادات اپنی جگہ قائم ہیں۔ ایک طرف تو دہشت گردی سے نمٹنا ہے اور دوسری طرف چین اور روس کے افغانستان میں روابط بڑھ رہیں ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے چین کی طرف سے افغانستان میں لیتھیم کے ذخائر میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کا حوالہ دیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ میں افغانستان اور پاکستان اسٹڈیز کے ڈائریکٹر ڈاکٹرمارون وائن بام نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ دنیا کے مختلف ممالک افغانستان سے اپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے روابط قائم کر رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ مغربی ممالک اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی افغان پالیسی بناتے ہیں کہ طالبان کی حکومت کو تسلیم نہ کیا جائے۔ دوسری طرف چین افغانستان سے اقتصادی فوائد حاصل کرنے کے لیے کابل سے انسانی حقوق کی پرواہ کیے بغیر ایسے تعلقات استوار کر رہا ہے جیسے کہ افغانستان میں معمول کے حالات ہیں اور وہ ایک نارمل ملک کی طرح کام کر رہا ہے۔
"میرے خیال میں افغانستان کے خلاف پابندیاں موثر ثابت نہیں ہوئیں ۔لہذا ان حالات میں امریکہ کو اپنی پالیسی کو آگے بڑھانے کے لیے طالبان سے بات چیت کرنا ہوگی۔"
ساتھ ہی وائن بام نے کہا کہ تصوراتی طور پر افغان طالبان سے بات چیت کی راہ ہی قابل عمل ہے لیکن سیاسی طور پر طالبان کے ماضی اور ان کی موجودہ پالیسیوں اور خاص طور پر خواتین سے برتاو کے پیش نظر امریکہ کے لیے یہ کام مشکل دکھائی دیتا ہے۔
وائن بام سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں اقتصادی اور سماجی شعبوں میں معنی خیز ترقی کے لیے عالمی پالیسی کا مربوط ہونا ضروری ہے۔
"لیکن فی الحال افغانستان کے متعلق پالیسی پر دنیا میں کوئی ربط نہیں ہے۔"