اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں پیدا ہونے والے بحران کے بعد امریکی محکمہ دفاع پینٹاگان نے مشرقی بحیرۂ روم میں اپنے دو طیارہ بردار بحری بیڑے تعینات کر دیے ہیں۔
مشرقی بحیرۂ روم سے ملحقہ خطے میں ترکیہ کے جنوب میں اناطولیہ سے لے کر مصر، اسرائیل، اردن، فلسطینی علاقے، شام اور لبنان کے ساحلی علاقے شامل ہیں۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق طیارہ بردار بحری بیڑے اسرائیل اور حماس جنگ کو ممکنہ طور پر خطے میں پھیلنے سے روکنے کے لیے پیشگی حفاظتی نقطۂ نظر سے منتقل کیے گئے ہیں۔
مشرقِ وسطیٰ میں پہلے ہی امریکہ کے جنگی بحری جہاز، طیارے اور فوجی اہل کار بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ اس کے باجود جن طیارہ بردار بحری بیڑوں کی خطے کے قریب پانیوں میں تعیناتی کے اقدام کی اہمیت سمجھنے کے لیے ان بحری بیٹروں کی صلاحیت سے متعلق تفصیلات دی جا رہی ہیں۔
فورڈ کیریئر
جیرالڈ فورڈ کیریئر کو اس کے معاون بحری جہازوں کے ساتھ گزشتہ ہفتے کے آغاز میں مشرقی بحیرۂ روم میں تعینات کیا گیا تھا۔
فورڈ کو 2017 میں امریکی بحریہ میں شامل کیا گیا تھا۔ یہ امریکہ کا قدرے نیا طیارہ بردار جہاز ہے جس کے عملے کی تعداد 5000 ہے۔
اس بیڑے میں ایک نیوکلیئر ری ایکٹر ہے اور یہ 75 سے زیادہ جنگی طیاروں کی گنجائش رکھتا ہے۔ اس پر موجود طیاروں میں ایف 18 سپر ہارنٹ جیٹ اور ای ٹو ہاک آئی شامل ہیں جو کسی بھی وارننگ پر فوری کارروائی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اس پر ’ایوالوڈ سی اسپیرو میزائل‘ بھی نصب ہیں جو درمیانے فاصلے تک سطح سے فضا میں مار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور طیاروں اور ڈرونز کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
فورڈ پر رولنگ ایئر فرایم میزائل بھی نصب ہیں جو اینٹی شپ میزائلز کو تباہ کر سکتے ہیں اور اس کے علاوہ ایم کے 15 فلانکس کلوز ان ویپن سسٹم بھی موجود ہیں جو بکتر بند سطح میں شگاف ڈالنے والی گولیاں فائر کر سکتا ہے۔
فورڈ پر انتہائی جدید رڈارز نصب ہیں جو ایئر ٹریفک کنٹرول کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ فورڈ کے معاون بحری جہازوں پر گائیڈڈ میزائل، میزائل شکن میزائل، سطح سے فضا، سطح سے سطح اور آبدوز شکن نظام بھی نصب ہیں۔
آئزن ہاور کیریئر
پینٹاگان نے اپنے طیارہ بردار جنگی بحری بیڑے ڈیوائٹ آئزن ہاور کو مشرقی بحیرۂ روم روانہ کر دیا ہے۔ یہ بحری بیڑہ ایک سے ڈیڑھ ہفتے کے دوران خطے میں پہنچ جائے گا۔
یہ بیڑہ 1977 میں امریکی بحریہ میں شامل ہوا تھا اور اسے نے 1990 میں عراق کے کویت کے حملے کے دوران امریکی آپریشنز میں حصہ لیا تھا۔
اس طیارہ بردار جہاز کو ’Ike‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ جوہری ہتھیار رکھتا ہے اور اس پر 5000 ہزار سیلرز تعینات ہیں۔ اس پر طیاروں کے نو اسکواڈرن ہیں جن میں لڑاکا طیارے، ہیلی کاپٹر اور انٹیلی جینس کی صلاحیت رکھنے والے طیارے بھی شامل ہیں۔
فورڈ کی طرح آئزن ہاور طیارہ بردار جہاز کے ساتھ بیڑے میں شامل جہاز اور کشتیوں پر کروز میزائل، گائیڈڈ میزائل اور میزائل شکن میزائل نصب ہیں۔ بیڑے میں شامل یہ معاون جہاز حملوں میں حصہ لے سکتے ہیں۔ لیکن اسرائیل کے لیے میزائل کے دفاعی نظام کے لیے موزوں نہیں ہیں۔
اسرائیل کے پاس میزائلوں اور فضائی حملوں سے محفوظ رہنے کا جدید اور جامع نظام موجود ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
’تیرنے والی سفارت کاری‘
امریکہ کی دفاعی و سیاسی تاریخ پر نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق امریکہ اپنے طیارہ بردار جہازوں کی نقل و حرکت کو دفاعی کے ساتھ سفارتی پوزیشن واضح کرنے کے لیے بھی استعمال کرتا ہے۔
امریکہ کی سابق سفیر اور سیاست دان جون ہنٹس مین نے ایک مرتبہ امریکہ کے طیارہ بردار بحری بیڑوں کو ’تیرنے والی سفارت کاری‘ قرار دیا تھا۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق حالیہ جنگ میں امریکہ کی جانب سے بحری بیڑوں کی بحیرۂ روم میں منتقلی بنیادی طور پر اسرائیل کے حمایت کے اس ’آئینی عزم‘ کا اظہار ہے جسے امریکی حکام دہراتے رہے ہیں۔
گزشتہ ہفتے کے دوران امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن اور وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن نے صدر جو بائیڈن کی ہدایت پر اسرائیل کا دورہ کیا تھا جہاں اسرائیلی قیادت سے ملاقاتوں میں انہوں نے اسرائیل کے حقِ دفاع کی حمایت کے ساتھ دفاعی مدد اور معاونت کا عزم بھی دہرایا تھا۔
مشرقِ وسطیٰ کے امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ حماس کے حملے نے خطے کا 'اسٹیٹس کو' تبدیل کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ برسوں میں اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان ہونے والی کشیدگی کے برعکس اس بار امریکہ کے واضح پیغام دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
عرب نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ سے بات کرتے ہوئے مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے صدر پال سلمان کا کہنا تھا کہ امریکہ طیارہ بردار جہازوں کو میدان میں اتار کر بڑا سیاسی اور اسٹرٹیجک اشارہ دے رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ امریکی فوج کی حالیہ تنازع میں مداخلت خارج از امکان نظر آتی ہے تاہم یہ حزب اللہ اور ایران کے لیے انتباہ ہے کہ اگر انہوں نے اس میں ملوث ہونے کی کوشش کی تو انہیں پہلے امریکہ کا سامنا کرنا ہوگا۔
ایران نواز لبنانی ملیشیا حزب اللہ نے بحیرۂ روم میں امریکی بحری بیڑوں کی آمد کو مسترد کردیا ہے۔ اپک بیان میں اس کا کہنا تھا کہ یہ اقدام ان کی قوم کو خوف زدہ نہیں کرسکے گا اور فتح تک اپنی مزاحمت جاری رکھیں گے۔
اس تحریر کے لیے خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے معلومات لی گئی ہیں۔