امریکہ کے محکمۂ خارجہ نے کہا ہے کہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکی حکام اور طالبان کے درمیان ملاقات میں افغانستان میں زلزلہ متاثرین کے لیے امداد اور کابل کے منجمد کیے گئے غیرملکی مالی ذخائر پر تفصیلی گفتگو ہوئی ہے۔
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں بدھ اور جمعرات کو امریکہ اور طالبان وفود کی ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات میں امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان تھامس ویسٹ، امریکی محکمۂ خارجہ، خزانہ اور یو ایس ایڈ کے نمائندوں نے شرکت کی جب کہ طالبان کی جانب سے ان کے عبوری وزیرِ خارجہ امیر خان متقی اور دیگر حکام موجود تھے۔
امریکی محکمۂ خارجہ نے جمعے کو جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا کہ ان ملاقاتوں میں امریکہ نے زلزلہ متاثرین کی مدد کے لیے ساڑھے پانچ کروڑ ڈالر کی نئی امداد کے اجرا کا اعادہ کیا ہے۔
بیان کے مطابق فریقین نے افغانستان کے عوام کے فائدے کے لیے افغان مرکزی بینک کے ذخائر میں ساڑھے تین ارب ڈالر کے حوالے سے امریکہ کے اقدامات پر تفصیلی گفتگو کی۔ اس کے ساتھ ساتھ مرکزی بینک میں عالمی اعتماد سازی کی بحالی کے لیے اقدامات پر بھی تبادلۂ خیال ہوا۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی کے مطابق افغانستان میں گزشتہ ماہ کے تباہ کن زلزلے کے بعد طالبان چاہتے ہیں کہ امریکہ کی جانب سے منجمد کیے گئے ملک کے غیر ملکی ذخائر کی بحالی کا راستہ نکالا جا سکے۔
SEE ALSO: افغان عوام کی مدد کا مطلب طالبان کو تسلیم کرنا نہیں، امریکہگزشتہ ماہ افغانستان کے مشرقی حصے میں 5.9 شدت کے زلزلے نے تباہی مچادی تھی۔ زلزلے سے ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک جب کہ ہزاروں بے گھر ہو گئے تھے۔
طالبان نے اگست 2021 میں افغانستان سے غیرملکی افواج کے انخلا کے ساتھ ہی کابل پر قبضہ کرلیا تھا۔ بعد ازاں امریکہ نے افغانستان کے 7 ارب ڈالر کے ذخائر کو منجمد کردیا تھا جب کہ عالمی برادری نے بھی افغانستان کے لیے اربوں کی براہ راست امداد روک دی تھی۔
محکمۂ خارجہ کا کہنا تھا کہ امریکہ افغانستان میں حالیہ زلزلے سے جانی نقصان اور مصائب پر تعزیت کا اظہار کرتا ہے۔
افغانستان کی امداد سے متعلق بیان میں کہا گیا کہ امریکہ کو انسانی امداد کی فراہمی میں طالبان کی بڑھتی مداخلت پر تشویش اور خدمات کی فراہمی میں شفافیت پر خدشات ہیں۔
دونوں فریقین کے درمیان ملاقات میں طالبان کی جانب سے افغان خواتین اور لڑکیوں کے حقوق پر بڑھتی پابندیاں امریکہ کی گفتگوکا مرکز تھی۔
محکمۂ خارجہ کا کہنا تھا کہ امریکہ افغان عوام کے مطالبے کی حمایت کرتا ہے کہ لڑکیوں کو واپس اسکول جانے اور خواتین کو کام کرنے کی اجازت ہونی چاہیے تاکہ وہ ملک کی معاشی ترقی میں کردار ادا کرسکے اور وہ آزادانہ نقل حمل کرسکیں۔
ملاقات کے دوران امریکی حکام نے افغانستان میں القاعدہ، داعش خراساں اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔تاہم بیان کے مطابق طالبان نے اپنے اس وعدے کا اعادہ کیا کہ وہ افغان سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔
'افغانستان پر عائد پابندیاں ختم ہونی چاہئیں'
ادھر افغان وزارتِ خارجہ نے جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ ملاقات میں سیاسی، اقتصادی اور انسانی معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
بیان کے مطابق افغان وزیرِ خارجہ نے زلزلہ متاثرین کے لیے پچاس لاکھ کی امداد پر امریکہ کا شکریہ ادا کیا اور اس بات کا اعادہ کیا کہ افغانستان کے منجمد اثاثے بحال اور ملک پر عائد پابندیاں ختم ہونی چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کی نئی اسلامی حکومت پر دباؤ کے بجائے ہمیں تعاون اور مثبت رابطوں کا راستہ اختیار کرنا چاہیے تاکہ ہم ترقی کرسکیں۔
'طالبان کے اقدامات پر تشویش ہے'
دوسری جانب افغان خواتین، لڑکیوں اور انسانی حقوق کے لیے امریکہ نمائندہ خصوصی رینا امیری نے اس ملاقات سے متعلق سلسلہ وار ٹویٹس میں کہا کہ انہوں نے طالبان کے ساتھ دوحہ ملاقات میں ''شرکت نہ کرنے کا انتخاب'' کیا لیکن وہ اس بات کو تسلیم کرتی ہیں کہ امداد جیسے معاملات کے لیے رابطہ ''ضروری'' ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ ''تب رابطے کو تیار'' ہیں جب کابل خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کے لیے اقدامات کریں گے۔
انہوں نے بتایا کہ رواں ہفتے امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان تھامس ویسٹ کی سربراہی میں ایک وفد نے طالبان سے ملاقات کی۔انہوں نے کافی غور و خوص کے بعد اس ملاقات میں شرکت نہ کرنے کا انتخاب کیا۔
تاہم ان کے بقول انہیں طالبان کے اقدامات اور ان علاقوں کے بارے میں موجودہ مؤقف پر سخت تشویش ہے جن پر ان کا دفتر نگرانی کرتا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ وہ اس بات پر مایوس ہیں کہ اس نکتے پر مضبوط بین الاقوامی رابطے بھی افغان خواتین، لڑکیوں اور خطرے سے دوچار آبادیوں کے لیے بامعنی نتائج نہیں لاسکے۔
اس خبر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے لی گئی ہے۔