’بے روک ٹوک، محفوظ اور قابل ِبھروسہ انٹرنیٹ‘ امریکہ اور چین دونوں کے لیے سودمند ثابت ہوگی: جو بائیڈن
واشنگٹن —
امریکی نائب صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ چین سائبر ہتھکنڈوں کے ذریعے امریکی حقوقِ دانش کی چوری بند کرے۔
اُنھوں نے یہ بات بدھ کو محکمہٴخارجہ میں دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان ہونے والے سالانہ مذاکرات میں خطاب کرتے ہوئے کہی۔ بائیڈن نے کہا کہ ’بلا روک ٹوک، محفوظ اور قابل ِبھروسہ انٹرنیٹ‘ سے امریکہ اور چین دونوں ہی مستفید ہوں گے۔
چینی نائب وزیر اعظم وینگ یانگ نے کہا کہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ دونوں ممالک مکالمے کے ذریعے اعتماد سازی کو فروغ دیں۔
تاہم، اُن کا کہنا تھا کہ چین ایسے خیالات کو کبھی قبول نہیں کرے گا جِن کے باعث اُس کی ترقی میں کوئی رکاوٹ آتی ہو۔
وینگ نے مزید کہا کہ چین و امریکہ کا تعاون ’باہمی رشتوں سے ماورا ہے‘، جس کے اثرات عالمی طور پر محسوس کیے جاتے ہیں۔
سالانہ بات چیت کا یہ پانچواں سال ہے، جس میں اعلیٰ عہدے دار شریک ہوتے ہیں جِن میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری، امریکی محکمہٴخزانہ کے وزیر جیک لیو اور چین کے سرکاری کونسلر، یانگ لیچی شامل ہیں۔
کیری نے کہا کہ مذاکرات دونوں ملکوں کو آپس کے اختلافات کو تعمیری انداز سے حل کرنے اور سمجھ بوجھ کو فروغ دینے کے لیے کھل کر بات چیت کی اجازت دیتے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ اس سال گفتگو کے ذریعے ورکنگ گروپس تشکیل دیے جا چکے ہیں جن کے ذمے معاملات کی چھان بین کرنا ہے، جس میں سکیورٹی اور ماحولیاتی تبدیلی کے امور آجاتے ہیں۔
چین کے سرکاری میڈیا نے بدھ کو رپورٹ دی ہے کہ امریکہ چین سائبر سکیورٹی پر قائم پہلے ورکنگ گروپ کی کارکردگی اچھی رہی، جس میں دونوں فریق نے معاملے پر کھل کر بات کی اور تعاون کو وسعت دینے پر اتفاق کیا۔
امریکی حکام کا کہنا تھا کہ نشست کے دوران اُنھوں نے معاشی نوعیت کے ہیکنگ کے معاملات کو اٹھایا۔ اُنھوں نے یہ بھی بتایا کہ فریقین نے ’سائبر اسپیس‘ کے بارے میں بین الاقوامی ضوابط پر بھی بات چیت کی۔
حالیہ دنوں میں ہونے والے’سائبر ہیکنگ‘ حملوں کےسلسلے میں امریکہ اور چین نے ایک دوسرے پر الزامات عائد کیے۔ یہ تنازع باہمی تعلقات کے ضمن میں ایک شدید خلش کا باعث بن چکا ہے۔
بات چیت کے قبل، حقوق سے متعلق گروپوں اور قانون سازوں نے امریکہ پر زور دیا ہے کہ چین کے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر تشویش کے معاملے کو مؤثر طور پر اٹھایا جائے، جو خاص طور پر چین کیے لیے ایک حساس موضوع کا درجہ رکھتا ہے۔
اُنھوں نے یہ بات بدھ کو محکمہٴخارجہ میں دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان ہونے والے سالانہ مذاکرات میں خطاب کرتے ہوئے کہی۔ بائیڈن نے کہا کہ ’بلا روک ٹوک، محفوظ اور قابل ِبھروسہ انٹرنیٹ‘ سے امریکہ اور چین دونوں ہی مستفید ہوں گے۔
چینی نائب وزیر اعظم وینگ یانگ نے کہا کہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ دونوں ممالک مکالمے کے ذریعے اعتماد سازی کو فروغ دیں۔
تاہم، اُن کا کہنا تھا کہ چین ایسے خیالات کو کبھی قبول نہیں کرے گا جِن کے باعث اُس کی ترقی میں کوئی رکاوٹ آتی ہو۔
وینگ نے مزید کہا کہ چین و امریکہ کا تعاون ’باہمی رشتوں سے ماورا ہے‘، جس کے اثرات عالمی طور پر محسوس کیے جاتے ہیں۔
سالانہ بات چیت کا یہ پانچواں سال ہے، جس میں اعلیٰ عہدے دار شریک ہوتے ہیں جِن میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری، امریکی محکمہٴخزانہ کے وزیر جیک لیو اور چین کے سرکاری کونسلر، یانگ لیچی شامل ہیں۔
کیری نے کہا کہ مذاکرات دونوں ملکوں کو آپس کے اختلافات کو تعمیری انداز سے حل کرنے اور سمجھ بوجھ کو فروغ دینے کے لیے کھل کر بات چیت کی اجازت دیتے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ اس سال گفتگو کے ذریعے ورکنگ گروپس تشکیل دیے جا چکے ہیں جن کے ذمے معاملات کی چھان بین کرنا ہے، جس میں سکیورٹی اور ماحولیاتی تبدیلی کے امور آجاتے ہیں۔
چین کے سرکاری میڈیا نے بدھ کو رپورٹ دی ہے کہ امریکہ چین سائبر سکیورٹی پر قائم پہلے ورکنگ گروپ کی کارکردگی اچھی رہی، جس میں دونوں فریق نے معاملے پر کھل کر بات کی اور تعاون کو وسعت دینے پر اتفاق کیا۔
امریکی حکام کا کہنا تھا کہ نشست کے دوران اُنھوں نے معاشی نوعیت کے ہیکنگ کے معاملات کو اٹھایا۔ اُنھوں نے یہ بھی بتایا کہ فریقین نے ’سائبر اسپیس‘ کے بارے میں بین الاقوامی ضوابط پر بھی بات چیت کی۔
حالیہ دنوں میں ہونے والے’سائبر ہیکنگ‘ حملوں کےسلسلے میں امریکہ اور چین نے ایک دوسرے پر الزامات عائد کیے۔ یہ تنازع باہمی تعلقات کے ضمن میں ایک شدید خلش کا باعث بن چکا ہے۔
بات چیت کے قبل، حقوق سے متعلق گروپوں اور قانون سازوں نے امریکہ پر زور دیا ہے کہ چین کے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر تشویش کے معاملے کو مؤثر طور پر اٹھایا جائے، جو خاص طور پر چین کیے لیے ایک حساس موضوع کا درجہ رکھتا ہے۔