سرد جنگ کے عروج پر،امریکی صدر رچرڈ نکسن نے کمیونسٹ چین کے مرکز اقتدار بیجنگ کا دورہ کیا جس نے آنے والے وقتوں میں امریکہ چین تعلقات کو استوار کیا اور چین کی پوزیشن کو دنیا میں اس طرح اجاگر کیا جو اُس وقت ناقابل یقین تھی۔
چین اور امریکہ کے تعلقات ہمیشہ مشکلات کا شکار رہے ہیں اور نصف صدی گزر جانے کے بعد بھی اتار چڑھاؤ کے باعث خطرات سے پُُُر ہیں ۔سرد جنگ ،عرصہ دراز سے ختم ہو گئی لیکن دونوں جانب یہ خدشات رہتے ہیں کہ ایک نئی جنگ کا آغاز ہو سکتا ہے۔
چین کی بار بار کی تردید کے باوجود ،امریکہ فکر مند ہے کہ جمہوری قیادت والی دنیا کو ،جس نے سوویت یونین پر فتح حاصل کی ،حاکمانہ اقتدار کے انداز والے چین سے ،جو ابھی بھی تیزی سے ترقی کر رہا ہے،خطرہ لاحق ہے۔
سٹینفورڈ یونیورسٹی کے چینی امور کے ماہر ،اوریانا سکائیلر ماسٹرو کا کہنا ہے کہ امریکہ اور چین کے تعلقات ہمیشہ تنازعات کا شکار رہے ہیں ،لیکن وہ ضرورت کے تحت قائم ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ شاید پچاس سال پہلےوجہ زیادہ تر اقتصادی تھی،لیکن اب وجہ دنیا کی سیکیورٹی ہے۔لیکن یہ رشتے نہ کبھی آسان تھے نہ اب ہوں گے۔
انیس سو بہتر میں نکسن کےدورے میں ،جس میں چیئرمین ماؤزے تنگ کے ساتھ ملاقاتیں اور گریٹ وال کی سیر شامل تھی،انیس سو اناسی میں سفارتی تعلقات کی بنیاد رکھی اور ساتھ ہی تائیوان سے باقاعدہ روابط منقطع ہوگئے ،جسے انیس سو انچاس میں ،کمیونسٹ پارٹی کے بیجنگ میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے،امریکہ نے چین کی حکومت کی حیثیت سے تسلیم کیا تھا۔دونوں جانب یہ دوستی حالات کی پیداوار تھی ،بجائے قدرتی وفاداریوں کے۔
چین اور سوویت یونین جو ماضی میں کمیونسٹ اتحادی تھے،علیحدہ ہوگئےبلکہ انیس سو انہتر میں ان کے درمیان سرحدی جھڑپیں بھی ہوئیں اور ماؤ نے محسوس کیا کہ سوویت حملے کے کسی خطرے میں امریکہ کا ساتھ توازن پیدا کر سکتا ہے۔
SEE ALSO: امریکی ڈالر دنیا کی طاقت ور ترین کرنسی کیسے بنا؟نکسن جو اپنے ملک میں واٹرگیٹ سکینڈل میں پھنسے ہوئے تھے،سوویت یونین کو تنہا کرنا چاہتے تھےاورویت نام کی طویل اور مہلک جنگ سے نکلنا چاہتے تھے ،جس نے امریکی سوسائٹی کو تقسیم کررکھا تھا۔انہیں امید تھی کہ چین اس تنازع کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
یونیورسٹی آف شکاگو کے ڈیلی یانگ کا کہنا ہے کہ نکسن کے دورے نے چین کو بیرونی طور پر تبدیل کر دیا ،جس نے اسے عالمی دنیا میں ترقی دی۔امریکہ چین کےلیے ایک بڑی منڈی بن گیا،جس نے ایک پسماندہ قوم کو دنیا کی ترقی یافتہ قوم بنا دیا۔
انیس سو چھہتر میں ماؤ کی موت کے دو سال بعد،نئے لیڈر ڈینگ زیاؤ پینگ نے جزوی اقتصادی آزادی کا دور شروع کیا ،جس میں ریاست کی قیادت میں سرمایہ داری اور ایک پارٹی کی حکمرانی کی بنیاد رکھی گئی جو آج بھی قائم ہے۔
چینی دولت نے اس کو فوجی قوت میں توسیع کے مواقع فراہم کیے، جنہیں امریکہ اور اس کے اتحادی ایک خطرہ سمجھتے ہیں جبکہ کمیونسٹ پارٹی کا کہنا ہے کہ یہ اپنے علاقے کے دفاع کے لیے ہیں۔ اس میں مشرقی بحیرہ چین میں ان جزائر کا کنٹرول بھی شامل ہے ،جن کی ملکیت کا دعویٰ جاپان اور جنوبی بحیرہ چین کے ارد گرد کئی ایشیائی ملک کرتے ہیں ۔فوج نے بڑی تعداد میں لڑاکا طیارے تربیتی مشن پر تائیوان بھیجے ہیں ،جو امریکہ کے ساتھ وجہ تنازع ہے۔چین کا دعویٰ ہے کہ یہ خودمختار مشرقی ساحلی جزیرہ اس کی ملکیت ہے جبکہ امریکہ تائیوان کو فوجی اسلحہ فراہم کرتا ہے اور چین کو اسے جبری طور پرہتھیانے کی کسی کوشش کے خلاف متنبہ کرتا ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی میں چینی تاریخ اور جدید سیاست کے پروفیسر رانا متّر کہتے ہیں کہ چین کو بین الاقوامی راستے پر واپس لانے کا عمل درست قدم تھا ،لیکن نصف صدی گزر جانے کے بعد بھی تعلقات ابھی تک مستحکم راستے پر نہیں چل سکے۔امریکہ اور چین ،ان کے مطابق،ایسا صحیح راستہ ا ختیار کرنے میں ناکام رہے ہیں جہاں وہ دنیا کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کرسکیں ،بلکہ ایک دوسرے کو برداشت کرنا ان کے لیےانتہائی مشکل ہوتا جارہا ہے۔
چینی عہدیدار اور دانشور خیال کرتے ہیں کہ نکسن کے دورے کے وقت باوجود اختلاف کے دونوں ملکوں نے اطلاعات اور باہمی ہم آہنگی کا تبادلہ کیا ۔ بیجنگ یونیورسٹی کے بین الاقوامی مطالعے کے ڈین ژو فینگ کا کہنا ہے کہ موجودہ اختلافات پر قابو پانے کےلیے بھی اسی طرز عمل کی ضرورت ہے۔ان کا کہنا تھا کہ نکسن کا دورہ ہمیں یاد دلا تا ہے کہ کیا ہم تاریخ سے ایک قسم کی طاقت حاصل کر سکتے ہیں،حالانکہ چین کے دورے نےسوویت یونین سے سرد جنگ میں امریکہ کو برتری دی،لیکن اب امریکہ کو ایک نئے سیاسی جغرافیائی منظر نامے کا سامنا ہے۔سوویت یونین ختم ہو چکا ،لیکن روسی اور چینی لیڈر ز، ولادیمیر پوٹن اور شی جن پنگ امریکہ کے خلاف مشترکہ حکمت عملی اختیار کر رہے ہیں ،تاکہ امریکی دباؤ کے خلاف اپنے حاکمانہ طریقے آزما سکیں ۔ویت نام جنگ ختم ہو چکی ،لیکن امریکہ کی سوسائٹی ایک بار پھر بٹی ہوئی ہے ،اس بار کرونا کی عالمی وباء سے نمٹنے اور پچھلے صدارتی انتخابات پر۔
امریکہ کےصدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ وہ چین کے ساتھ زیادہ مثبت تعلقات چاہتے ہیں ۔لیکن تجارت اور انسانی حقوق پر بڑے اختلافات باہمی ہم آہنگی کی راہ میں رکاوٹ ہیں ۔نکسن کے دورے میں جو دیرپا استحکام کے رشتے نظر آئے تھے اب بھی پہنچ سے بہت دور نظر آتے ہیں۔
چین کی خارجہ امور کی یونیورسٹی میں بین الاقوامی امور کے پروفیسر ،ژیانگ ژی یانگ کہتے ہیں کہ چین امریکہ تعلقات انتہائی دشوار ہیں اور حقیقت میں لوگ ان میں بہتری کی امید کرتے ہیں،لیکن ان کا حصول بہت ہی مشکل ہے۔
(خبر کا مواد اے پی سے لیا گیا)