چین اور روس نے رواں سال اپنے سیاسی، معاشی اور عسکری تعلقات کو مضبوط کیا ہے اس کے باوجود کے ماضی میں ان کے تعلقات میں اس قدر قربت نمایاں نہیں تھی۔
دونوں ممالک کا کہنا ہے کہ وہ مغرب کی جانب سے بڑھتے ہوئے مبینہ دباؤ کو پسند نہیں کرتے۔
رواں سال اب تک دونوں ممالک دو مشترکہ فوجی مشقوں میں شریک ہو چکے ہیں اور انھوں نے مغربی ملکوں کے لیے مشترکہ سفارتی بیانات بھی جاری کیے ہیں۔
مثال کے طور پر 27 نومبر کو ایک مشترکہ مضمون شائع ہوا جس میں دونوں ممالک کے واشنگٹن میں تعینات سفیروں نے امریکہ کی قیادت میں جمہوریت کے عنوان پر منعقدہ ایک سربراہی اجلاس پر تنقید کی۔ اور انھوں نے الزام لگایا کہ دنیا کو منقسم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
روس یا چین میں سے کوئی بھی اس اجلاس میں شریک نہیں ہوا تھا جب کہ اس اجلاس کے شرکا کی فہرست میں 110 ممالک کے ماہرین شامل تھے۔
روس کی اکیڈمی آف سائنسز کے انسٹیٹیوٹ آف فار ایسٹرن اسٹڈیز کے ایک سینئر فیلو واسلی کاشن نے کہا ہے کہ تیل اور گیس کی برآمد کے لیے روس چین کی بڑی صنعتی معیشت پر انحصار کرتا ہے۔ ایسے میں ماحولیات سے متعلق یورپی یونین کے ضابطے توانائی کی درآمد کو پیچیدہ بنا رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ سال 1950کے بعد دونوں کے مابین تعلقات اپنی مضبوط ترین سطح پر ہیں۔
کاشین کے بقول سب سے اہم بات یہ ہے کہ 'گلوبل آرڈر' کے بارے میں دونوں ممالک کا مؤقف یکساں ہے اور وہ یہ کہ امریکی گلوبل آرڈر کو دونوں پسند نہیں کرتے۔ اس لیے یہ قریبی تعلق امریکہ کی قیادت والے گلوبل آرڈر کے خلاف یکساں مؤقف پر مبنی ہے۔
امریکہ سے آسٹریلیا اور یورپ کی مغربی جمہوریتوں نے اس سال اپنے تعلقات کو تقویت دی ہے جب انھیں چین کی پالیسیوں پر تشویش لاحق ہے۔
تائیوان کے معاملے پر مغربی حکومتوں نے چین کی جانب سے اختیار کردہ مبینہ جارحانہ زبان کی مخالفت کا اعلان کیا ہے۔
ساتھ ہی انھوں نے ہانگ کانگ کے منحرفین کے خلاف سخت کارروائی اور چین کے سنکیانگ علاقے میں مسلمان اقلیت کو ہدف بنانے کی پالیسیوں کی مخالفت کی ہے۔
مغربی اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک چین کی مبینہ جارحانہ سفارت کاری کے انداز کو پسند نہیں کرتے جب کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی بیرون ملک لوگوں میں اپنے مؤقف کو پھیلانے کے لیے کھل کر کام کر رہی ہے۔
امور خارجہ کے ماہرین نے الزام لگایا ہے کہ چین اپنے ملک کا دفاع کرنے کے لیے جارحانہ حربے استعمال کر رہا ہے جن میں سے اکثر کا تعلق سائبر دنیا سے ہے۔
سنگاپور میں قائم بین الاقوامی علوم کے راج رتنم اسکول کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ایلن چونگ کا کہنا ہے کہ چین اور روس نے براک اوباما اور جارج ڈبلیو بش کی صدارت کے ادوار میں اختیار کردہ نرم مؤقف کی نفی پر دھیان مرکوز کر رکھا ہے جب چھوٹے ممالک عالمی طاقتوں میں سے امریکہ کے سربراہان کو زیادہ قابل قبول خیال کرتے تھے۔
چینگ نے کہا کہ چین کے صدر شی جن پنگ ملک کے اندر مضبوط لیڈر بن کر ابھرنا چاہتے ہیں۔ چاہے اس کے نتیجے میں بیرون ملک یکجہتی اور دوستی داؤ پر لگ جائے۔ چین سمجھتا ہے کہ امریکی صدر جوبائیڈن انتہائی سخت لیڈر ہیں۔
تائیوان کے معاملے پر مغربی حکومتوں نے اس سال چین کے بیانات کو جارحانہ قرار دیا ہے جو ایک خودمختار علاقہ ہے جسے چین اپنا خطہ تصور کرتا ہے۔
ساتھ ہی یوکرین کی سرحد کے قریب فوج کی تعیناتی کے معاملے پر گزشتہ ماہ امریکی حکام روس کو انتباہ جاری کر چکے ہیں۔