جمعرات کو چینی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ پارسل جزائر کے قریب اس کے بحری فوجی دستے نے جنوبی بحیرہ چین (ساؤتھ چائنا سی) میں داخل ہونے والے امریکی جنگی بحری جہاز کا تعاقب کیا اور اسے متنازعہ پانیوں سے نکلنے پر مجبور کر دیا۔ امریکہ اور چین کے درمیان اس علاقے میں یہ کشیدگی کا تازہ ترین واقعہ ہے۔
پیپلز لبریشن آرمی کی جنوبی کمان کا کہنا ہے کہ امریکی بحری جنگی جہاز "یو ایس ایس بین فولٖڈ" چین کی سمندری حدود میں، ان کے الفاظ میں، غیر قانونی طور پر بنا اجازت داخل ہوا اور چین کی خود مختاری کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا۔چین کی بحریہ اور فضائیہ نے فوری طور پر اس کا پتا لگایا اور اس کا تعاقب کیا۔ چینی فوج کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم امریکہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فوری طور ایسی اشتعال انگیز کارروائیوں سے باز آئے ورنہ اسے اس کے سنگین اور غیر متوقع نتائج بھگتنا ہوں گے۔
امریکی بحریہ نے چین کے اس دعوے کو مسترد کیا کہ بینفولڈ کو علاقے سے بھگا دیا گیا۔ تاہم اس نے کہا کہ اس مشن سے امریکی بحریہ کے اس ارادے کی عکاسی ہوتی ہےکہ وہ آزاد جہاز رانی کے تحفظ کے لیے پر عزم ہے۔
SEE ALSO: مذاکرات اور لڑائی کی تیاری ساتھ ساتھ: چین کے لیے بائیڈن کی دو جہتی پالیسیامریکی ساتویں بیڑے کے ترجمان مارک لینگ فورڈ نے ایک بیان میں کہا کہ اس مشن کے بارے میں چین کا بیان غلط بیانی پر مبنی ہے۔ "بین فولڈ" نے بین الاقوامی قوانین کے مطابق آزاد جہاز رانی کے اصول پر کاربند رہتے ہوئے بین الاقوامی پانیوں میں اپنی معمول کی کارر وائی جاری رکھی۔
امریکی بحریہ اکثر ساؤتھ چائنا سی پر چین کے ملکیتی دعوے کو چیلنج کرنے کےلیے علاقے کے بین الاقوامی پانیوں میں اس طرح کے معمول کے گشت کرتی رہتی ہے۔
امریکی بحریہ کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکہ بین الاقوامی قانون کے مطابق ہر ملک کی پرواز اور جہاز رانی کے حق کا دفاع کرتا ہے۔ یہی اس ہفتے "یو ایس ایس بینفولڈ" نے کیا اور ہمیں اس سے کوئی روک نہیں سکتا۔
ساؤتھ چائنا سی ان چند فلیش پوانٹس میں سے ایک ہے، جن پر چین اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں کشیدگی دیکھی جاتی ہے۔ امریکہ ان پانیوں پر چین کے دعووں کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے مسترد کرتا آیا ہے۔
بیجنگ ساوتھ چائنا سی کے وسیع علاقوں کی ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے ، ان میں وہ سمندری علاقے اور جزائر بھی شامل ہیں ، جن پر تائیوان، ویت نام،ملائیشیا،برونائی اورفلپائن بھی حق ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔
(خبر کا مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے)