امریکہ چین تجارت: امریکیوں میں سخت اختلاف رائے

وہائٹ ہاؤس کے لیے صدر براک اوباما اور ان کے ریپبلیکن حریف مٹ رومنی کے درمیان جنگ میں، چین کے ساتھ تجارت ایک سیاسی مسئلہ بن گئی ہے
انتخاب کے اس سال میں، دونوں صدارتی امیدوار ، چین اور تجارت کو بحث کا موضوع بنا رہے ہیں ۔ ملک میں بے روزگار ی کی شرح آٹھ فیصد سے زیادہ ہے اور بعض امریکیوں کا خیال ہے کہ امریکہ میں فیکٹریاں بند ہونے کی وجہ چین ہے ۔ لیکن بعض دوسرے امریکی کہتے ہیں کہ چین کے ساتھ تجارت سےامریکہ کو فائدہ ہوتا ہے ۔ چین سے آنے والی 40 فیصد در آمدات جنوبی کیلے فورنیا پہنچتی ہیں۔

30 برس سے زیادہ عرصے سے، ڈیوڈ ببونا اور ان کے بھائی اپنے پرزے بنانے کے کاروبار کو ترقی دیتے رہے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ حالیہ برسوں کے دوران، ان کا کام بہت مشکل ہو گیا ہے ۔ ان کے بقول،ہماری کمپنی کا کاروبار تین سے چار گنا زیادہ ہو سکتا تھا۔ زیادہ ہو سکتا تھا اگر ان کو چین سے مقابلہ نہ کرنا پڑتا جہاں پرزے تیار کرنا بہت سستا پڑتا ہے ۔

ببونا کے الفاظ میں، ہمارے لیے یہ کاروبار بہت مشکل ہو گیا ہے ۔ بعض اوقات ہمیں چین کی قیمت پر پرزے تیار کرنے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں پرزے تیار کرنے پڑتے ہیں۔

وہائٹ ہاؤس کے لیے صدر براک اوباما اور ان کے ریپبلیکن حریف مٹ رومنی کے درمیان جنگ میں، چین کے ساتھ تجارت ایک سیاسی مسئلہ بن گئی ہے ۔ مسٹر اوباما کہتے ہیں کہ ایک بزنس مین کی حیثیت سے مسٹر رومنی نے امریکی فیکٹریاں بند کر دیں اور روزگار کے مواقع چین منتقل کر دیے ۔

دوسری طرف, مسٹر رومنی نے کہا ہے کہ مسٹر اوباما نے چین کے ساتھ نرم رویہ اختیار کر رکھا ہے, جب کہ چین تجارت میں ایسے طریقوں پر عمل کرتا ہے جو غیر منصفانہ ہیں۔


یونیورسٹی آف کیلے فورنیا کے پروفیسرپیٹر نوارو چین اور تجارتی قوانین کو اور زیادہ سیاسی بڑا سیاسی مسئلہ بنانا چاہتےہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکہ چین کا مقابلہ اس لیے نہیں کر سکتا کیوں کہ چین اپنی صنعتوں کو غیر قانونی مالی اعانتیں دیتا ہے ۔ وہ چین پر اپنی کرنسی کی قدر میں اتار چڑھاؤ کا الزام بھی عائد کر تے ہیں۔

ان کے الفاظ میں، سنہ2001 میں ہم نے چین کو یہاں امریکہ میں اپنی منڈیوں میں داخل ہونے دیا، اور اس کے بعد سے اب تک ہماری 50,000 سے زیادہ فیکٹریاں بند ہو چکی ہیں، ہم نے اشیاء کی تیاری کی صنعتوں میں روزگار کے 60 لاکھ مواقع کھو دیے ہیں، ہمارے ملک میں دو کروڑ پچاس لاکھ ایسے لوگ ہیں جنہیں کوئی معقول کام نہیں ملتا، اور ہم اب دنیا کے سب سے بڑے مطلق العنان ملک کے 3 ٹریلین ڈالر کے قرضدار ہیں ۔


نوارو اپنے اس پیغام کو بڑے اسکرین تک لے جا رہےہیں ۔ انھوں نے دستاویزی فلم ، Death by China تحریر کی ہے، اس کی ہدایات دی ہیں اور اسے پروڈیوس کیا ہے ۔


نوارو کا کہنا ہے کہ چین کے ساتھ تجارت میں اصلاحات کی جائیں، مثلاً ایسے ضابطے بنائے جائیں جن کے تحت ایسے ملکوں کے ساتھ تجارت محدود کر دی جائے جو مزدوروں کو اجرت کی ادائیگی میں اور کام کے گھنٹوں میں، بین الاقوامی معیاروں کی پابندی نہیں کرتے ۔

اُن کےبقول، آزاد تجارت ضابطوں کے تحت ہو تو دونوں ملکوں کی جیت ہوتی ہے ۔ آزاد تجارت چین کے ضابطوں کے تحت ہوتی ہے، تو صرف چین کی جیت ہوتی ہے۔


وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ صارفین چین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تاریخ کو بھی ذہن میں رکھیں اور چینی اشیاء خریدنے سے پہلے یہ بھی سوچیں کہ چینی اشیاء میں کوالٹی کنٹرول کا فقدان ہے ۔

لِنڈا پکئی جیسے بعض امریکی، چین میں تیار کی ہوئی اشیاء کا بائیکاٹ کرتی ہیں ۔وہ کہتی ہیں کہ، ’بات یہ ہے کہ ہم سب کو، ظالمانہ ، غیر منصفانہ ، خطرناک اور غیر جمہوری طریقوں کی مخالفت کرنی چاہیئے ‘۔

لیکن سب امریکیوں کا یہ خیال نہیں ہے کہ چین کے ساتھ کاروبار کرنا کوئی بری بات ہے ۔

لاس انجیلیس کی بندرگاہ پر سرکاری عہدے دار کہتےہیں کہ چین کے ساتھ تجارت میں اضافے کی وجہ سے، روزگار کے بہت سے نئے مواقع پیدا ہو رہے ہیں ۔ الیکٹریشین جیریمی روزک کہتےہیں کہ یہی وجہ ہے کہ وہ اب تک روزگار سے لگے ہوئے ہیں ۔ ان کے بقول، یہ بات بالکل صحیح ہے ۔ یہاں ہم جو کچھ کر رہے ہیں، اس سے ہم سب کو فائدہ ہو رہا ہے ۔

بندرگاہ کے عہدےدار فلپ سین فیلڈ کہتےہیں کہ کیلے فورنیا میں 12 لاکھ جاب ایسے ہیں جن کا تعلق بندرگاہوں سے ہے ۔ درآمدات کا 60 فیصد حصہ چین سے آتا ہے، اور ایک تہائی بر آمدات وہاں جاتی ہیں۔

اُن کے الفاظ میں، لہٰذا یہاں بندرگاہ پر آج کے جتنے بھی جاب ہیں، ان کی بہت بڑی تعداد کا تعلق اس تجارت سے ہے جو ہم چین کے ساتھ کرتےہیں ۔

بین الاقوامی اقتصادی ماہر فرنینڈو گوئیرا کہتے ہیں کہ اگر چہ در آمدات اور بر آمدات میں اب بھی عدم توازن ہے، لیکن اس میں تبدیلی آ رہی ہے اور امریکی بر آمدات، جیسے زرعی اشیاء اور شراب کی بر آمد میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ گوئیرا کے بقول، گذشتہ چند برسوں کے دوران، بر آمدات میں پندرہ سے 20 فیصد کا اضافہ ہوا ہے ۔ چین میں متوسط طبقے میں اضافے کے ساتھ ساتھ یہ رجحان جاری رہے گا۔
گوئیرا یہ بھی کہتےہیں کہ چین میں بنی ہوئی چیزوں سے امریکیوں کو فائدہ ہوتا ہے ۔ اُن کےبقول، امریکہ میں سستی چینی چیزوں کی آمد سے، ہمیں افراطِ زر کو کنٹرول کرنے میں کامیابی ہوئی ہے ۔


گوئیرا تسلیم کرتےہیں کہ چینی درآمدات کی وجہ سے بعض امریکیوں کو نقصان پہنچتا ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ اس کا حل یہ نہیں ہے کہ ہم تجارتی جنگ کا اعلان کر دیں۔ وہ کہتےہیں کہ اس کے بجائے، امریکی معیشت کی مدد کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ چین کے ساتھ تجارت بڑھائی جائے ۔