چین کے صدر ہو جن تاؤ نے افریقی حکومتوں کے لیے اگلے تین سال کے دوران 20 ارب ڈالر مالیت کے نئے قرضے دینے کا وعدہ کیا ہےجس سے قدرتی وسائل سے مالااس براعظم کے ساتھ چین کے تیزی سے بڑھتے ہوئے تعلقات میں مزید اضافہ ہوگا۔
مجوزہ قرضوں کاخاکہ جمعرات کو چینی صدر ہوجن تاؤ نے بیجنگ میں افریقی راہنماؤں کی سربراہ کانفرنس کے افتتاح کے موقع پر اپنی تقریر کے دوران پیش کیا۔
مجوزہ قرضوں کا یہ حجم اس سے قبل 2009ء کے اجلاس میں کیے جانے والے اعلان سے دگنا ہے۔
صدر ہوجن تاؤ کا کہناتھا کہ 20 ارب ڈالر کے قرضے افریقی ممالک میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر، زرعی اور صنعتی ترقی اور چھوٹے اور درمیانے سائز کے کاروباری اداروں کی ترقی کے لیے دیے جائیں گے۔
انہوں نے یہ اعلان چائنا افریقہ کوآپریشن کے اجلاس کے موقع پر کیا ۔
افریقی ممالک میں چین کی سرمایہ کاری کے پھیلاؤ نے مزوروں کے حقوق کی خلاف ورزیوں اور بدعنوانی سے متعلق کئی خدشات کو جنم دیا ہے ۔ چین پر یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ وہ اپنے معاشی مفاد کے لیے انسانی حقوق کو نظر انداز کررہاہے۔
بیجنگ کانفرنس میں افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے درجنوں اعلیٰ سطحی عہدے دار شریک ہیں جن میں جنوبی افریقہ کے صدر جیکب زوما بھی شامل ہیں۔ انہوں نے چین کی جانب سے سرمایہ کاری میں اضافے کو سراہتے ہوئے یہ بھی کہاہے کہ طویل المدت غیرمتوازن تجارت ناقابل قبول ہے۔
مجوزہ قرضوں کاخاکہ جمعرات کو چینی صدر ہوجن تاؤ نے بیجنگ میں افریقی راہنماؤں کی سربراہ کانفرنس کے افتتاح کے موقع پر اپنی تقریر کے دوران پیش کیا۔
مجوزہ قرضوں کا یہ حجم اس سے قبل 2009ء کے اجلاس میں کیے جانے والے اعلان سے دگنا ہے۔
صدر ہوجن تاؤ کا کہناتھا کہ 20 ارب ڈالر کے قرضے افریقی ممالک میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر، زرعی اور صنعتی ترقی اور چھوٹے اور درمیانے سائز کے کاروباری اداروں کی ترقی کے لیے دیے جائیں گے۔
انہوں نے یہ اعلان چائنا افریقہ کوآپریشن کے اجلاس کے موقع پر کیا ۔
افریقی ممالک میں چین کی سرمایہ کاری کے پھیلاؤ نے مزوروں کے حقوق کی خلاف ورزیوں اور بدعنوانی سے متعلق کئی خدشات کو جنم دیا ہے ۔ چین پر یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ وہ اپنے معاشی مفاد کے لیے انسانی حقوق کو نظر انداز کررہاہے۔
بیجنگ کانفرنس میں افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے درجنوں اعلیٰ سطحی عہدے دار شریک ہیں جن میں جنوبی افریقہ کے صدر جیکب زوما بھی شامل ہیں۔ انہوں نے چین کی جانب سے سرمایہ کاری میں اضافے کو سراہتے ہوئے یہ بھی کہاہے کہ طویل المدت غیرمتوازن تجارت ناقابل قبول ہے۔