امریکی کانگرس کے اراکین ایک ایسا قانون پاس کرنے کو کشش کر رہے ہیں جس کے تحت امریکی کمپنیوں کو چینی کمپنیوں سے اشیاء کی پیداوار میں مسابقت کے حوالے سے سازگار ماحول میسر آئے۔
یہ کوشش ایسے وقت ہو رہی ہے جب دنیا میں اشیا کی ترسیل سے متعلق تاخیری حربوں کے استعمال پر تشویش بڑھ رہی ہے۔
سینیٹ میں اکثریتی ڈیموکریٹک جماعت کے رہنما چک شومر نے منگل کے روز کہا کہ چین کے ساتھ اشیا کی پیداوار کے متعلق بل، "یو ایس انوویشن اینڈ کمپیٹیشن ایکٹ" کو قومی دفاع کے اخراجات کی قانون سازی کے ساتھ ایوان میں پیش کیا جائے گا، جسے اس سال کے آخر تک منظور کیا جانا لازمی ہے۔
ایوان میں دیے گئے ایک بیان میں سینیٹر شومر نے کہا کہ: "محض ایک نسل پہلے تک ہم دنیا کی چِپ کی سپلائی کا تقریباً ایک تہائی پیدا کرتے تھے۔ اب 12% سے بھی کم امریکہ میں بنتے ہیں جب کہ دیگر ممالک، خصوصاً چین نے ہمیں اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔"
بقول ان کے، "یہ سب کچھ امریکی ورکرز، صارفین اور قومی سلامتی کے لیے نقصان دہ ہے۔"
انہوں نے کہا کہ کانگرس کو یہ بل اس سال پمنظور کرلینا چاہیے کیونکہ اسے دونوں جماعتوں (ڈیموکریٹک اور ری پبلیکن) کی حمایت حاصل ہے۔" اس سے ہم امریکہ کے اندر چِپ کی پیداوار کو مضبوط کر سکتے ہیں۔"
خیال رہے کہ امریکی سینیٹ نے اس بل کو 68-32 کے ووٹ سے جون میں منظور کیا تھا، لیکن ابھی اسے ایوان نمائندگان کی منظوری حاصل ہونا باقی ہے۔
اگر یہ بل کانگرس کے دونوں ایوانوں سے پاس ہو جاتا ہے تو اس کے تحت چین سے سیمی کنڈکٹرز کی پیداوار اور ٹیکنالوجی سکیورٹی جیسے شعبوں میں مقابلے کے لیے اور امریکی ورکرز کی ٹریننگ کے لیے 190 ارب ڈالرز مہیا کئے جائیں گے۔
اس بل کے منظور ہونے کی صورت میں ایسی چینی کمپنیوں پر پابندیاں بھی عائد ہو سکیں گی جو جملہ حقوق کی چوری یا امریکہ میں سائبر حملوں میں ملوث پائی جائیں گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق چین اس قسم کی قانون سازی کے خلاف بھرپور لابی کر رہا ہے جس میں امریکی کمپنیوں کے لیڈرز کو لکھےگئے خطوط بھی شامل ہیں جن میں کاروباری رہنماوں سے کہا گیا ہے کہ وہ کانگریس پر زور دیں کہ وہ اس بل کو رد کر دے۔
امریکی سینیٹ سے اس بل کے پاس ہونے کے ردعمل میں چین کی نیشنل پیپلز کانگرس کی خارجہ امور کی کمیٹی نے اسے تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ"یہ بل سرد جنگ کی ذہنیت اور نظریاتی تعصب سے بھرا ہوا ہے … یہ چین کی ترقی کے راستے اور اس کی ملکی اور غیر ملکی پالیسیوں کو بدنام کرتا ہے۔"
صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے ایسے اقدامات کی حمایت کی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس بل کے سینیٹ سے پاس ہونے کے بعد اسے ایوان نمائندگان کی منظوری حاصل کرنا ہو گی جس کے بعد اسے قانون کی شکل دینے کی خاطر امریکی صدر کے دستخط کے لیے وائٹ ہاوس بھیجا جائے گا۔
کیپیٹل ہل پر امریکہ کا چین سے پیداوار میں مسابقت کا ماحول سازگار کرنا ایک ایسا معاملہ ہے جس کو دونوں پارٹیوں کے قانون سازوں کی حمایت حاصل ہے۔ تاہم، اس مسئلے پر دونوں کے طریقہ کار مختلف ہیں۔
اس ہفتے چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ صدر بائیڈن کی ورچوئل ملاقات کے بعد، سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے رکن سینیٹر جم رِش نے ایک بیان میں کہا تھا کہ صدر بائیڈن نے اس میٹنگ میں بیجنگ کے غیر منصفانہ تجارتی اور اقتصادی طریقوں اور شفافیت کی عدم موجودگی کے بارے میں خدشات کو بیان کیا۔
ان کے بقول، "اگر صدر شی واقعی امریکہ کے ساتھ تعاون کا رشتہ چاہتے ہیں تو انہیں تائیوان کو دھمکیاں دینا بند کرنا ہوں گی۔"
SEE ALSO: بائیڈن شی ورچوئل ملاقات: 'حالات کو قابو سے باہر ہونے سے روکنے کی کوشش تھی'ریپبلکن سینیٹر مارکو روبیو نے اس ہفتے چین کے ساتھ امریکی مقابلےکے ضمن میں اس بل میں درجنوں ترامیم پیش کیں، جن میں ایسے اقدامات شامل ہیں جو تائیوان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کو مضبوط کریں گے، ترقی پذیر افریقی ممالک میں چینی اقتصادی اقدامات کے تجزیہ کے لیے فنڈ فراہم کریں گے اور ایسے چینی شہریوں پر پابندیوں کی راہ ہموار کریں گے جو جنوبی بحیرہ چین کے متنازعہ علاقوں پر دوبارہ دعویٰ کرنے میں ملوث ہوں گے۔
سینیٹ کی امور خارجہ تعلقات کمیٹی کے چیئرمین باب مینینڈیز نے 27 اکتوبر کو اس قانون سازی کی حمایت کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا تھا کہ چین کے ٘مخالفانہ ہتھکنڈوں کے باوجود، تائیوان غربی نصف کرہ میں ایک موثر شراکت دار ثابت ہوا ہے۔
اس ہفتے امریکہ کے چھ قانون سازوں نے تائیوان کا دورہ کیا، جبکہ اس جزیرے کی حیثیت امریکہ اور چین کے تعلقات میں مسلسل رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ چین نے اس دورے کے لیے امریکی ملٹری جہاز کے استعمال کی مذمت کی تھی۔