|
اب جب کہ امریکہ میں یونیورسٹیاں کھلنے والی ہیں، منتظمین غزہ جنگ کے خلاف مظاہروں کے دوبارہ ابھرنے کے خدشے کے پیش نظر خود کو تیار کر رہے ہیں اور کچھ یونیورسٹیاں انہیں محدود کرنے کے لیے قوانین کا نفاذ کر رہی ہیں۔
گرمیوں کی تعطیلات نے جہاں اسرائیل حماس جنگ کے خلاف مظاہروں میں وقفہ فراہم کیا وہیں موسم خزاں کے سمسٹر کے آغاز پر مظاہرہ کرنے والے طلبہ کو منظم ہونے اور اعلیٰ تعلیم کے حکام کو اپنی حکمت علمی طے کرنے کا موقع بھی دیا۔
خدشات اور خطرات بدستور بہت زیادہ ہیں۔نیویارک شہر کی کولمبیا یونیورسٹی کی صدر منوش شفیق نے، جہاں گزشتہ موسم بہار میں فلسطینیوں کی حمایت میں خیمہ بستیوں کی لہر شروع ہوئی تھی، کمپیس میں مظاہروں سے نمٹنے کے حوالے سے سخت باز پرس کے بعد بدھ کو استعفیٰ دے دیا تھا۔
یونیورسٹیوں کی جانب سے نافد کیے جانے والے کچھ نئے قوانین میں خیمہ بستیوں پر پابندی، مظاہروں کے دورانیے کو محدود کرنا، صرف مخصوص مقامات پر احتجاج کی اجازت دینا اور کیمپس تک رسائی کو صرف یونیورسٹی کا شناختی کارڈ رکھنے والوں تک محدود کرنا شامل ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ان میں سے کچھ اقدامات اظہارکی آزادی کو گھٹا دیں گے۔
امریکن ایسوسی ایشن آف یونیورسٹی پروفیسرز نے بدھ کو ایک بیان جاری کیا جس میں ’شدید پابندیوں والی پالیسیوں‘ کی مذمت کی گئی جو آزادی اظہار کی حوصلہ شکنی کر سکتی ہیں۔
بہت سی نئی پالیسیاں یہ تقاضا کرتی ہیں کہ مظاہرین بہت پہلے سے آگاہ کریں، اجتماع کے مقامات تک سختی سے محدود رہیں، لاؤڈ اسپیکر اور بینرز، سائن بورڈز اور پلے کارڈز وغیرہ کے استعمال سے متعلق نئی حدود پر عمل کریں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ ہمارے کالجوں اور یونیورسٹیوں کو چاہیے کہ وہ اظہارکو دبانے کی بجائے کھلے اور بھرپور مکالمے اور مباحثے اور حتیٰ کہ ان عقائد پر بحث کریں جن پر لوگ سختی سے قائم ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ بہت سی پالیسیاں فیکلٹی سے رائے لیے بغیر نافذ کی گئیں ہیں۔
یونیورسٹی آف پنسلوینیا نے طلبہ کے احتجاج کے لیے نئی ’ عارضی ہدایات‘ کا خاکہ جاری کیا ہے جن میں خیمہ بستیاں بنانے، راب بھر مظاہرے کرنے، اور جن دنوں کلاسز ہو رہی ہوں، شام پانچ بجے سے بعد تک میگا فون اور لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر پابندی شامل ہے۔ پنسلوینیا یونیورسٹی نے یہ بھی کہا ہے کہ پوسٹرز اور بینرز کو لگانے کے بعد دو ہفتوں کے اندر ہٹا دیا جائے۔
یونیورسٹی کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ آزادی اظہار اور قانونی اجتماع کے لیے پرعزم ہے۔
انڈیانا یونیورسٹی نے یکم اگست سے نافذ کی جانے والی ’اظہار کی سرگرمیوں سے متعلق پالیسی‘ کے تحت رات 11 بجے کے بعد احتجاج کی ممانعت کر دی گئی ہے۔ پالیسی میں کہا گیا ہے کہ کیمپس میں خیمے لگانا یا کسی قسم کی پناہ گاہ بنانا منع ہے اور پیشگی منظوری کے بغیر یونیورسٹی کی حدود میں بینر اور پوسٹر وغیرہ نہیں لگائے جا سکتے۔
یونیورسٹی آف ساؤتھ فلوریڈا اب خیمے اور شامیانے لگانے، بینرز، پوسٹرز اور لاؤڈ اسپیکرز کے لیے اجازت لینے کا تقاضا کرتی ہے۔ یونیورسٹی کے ’ تقریر. اظہار اور اجتماع‘ کے قوانین کے تحت ہفتے کے دوران، اختتام ہفتہ اور سمسٹر کے دو آخری ہفتوں میں شام پانچ بجے کے بعد احتجاج اور مظاہرے سمیت کسی نوعیت کی سرگرمی ممنوع ہے۔
ہاروڈ یونیورسٹی کے طلبہ کے اخبار نے موسم گرما کے دوران ایک دستاویز کا مسودہ حاصل کیا، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ یونیورسٹی رات کے وقت خیمے لگانے، دیواروں پر پیغامات لکھنے اور غیر منظور شدہ بینرز اور پوسٹرز وغیرہ پر پابندی لگانے پر غور کر رہی ہے۔
کارنیل یونیورسٹی میں لیبر اینڈ ایمپلائمنٹ لاء کی پروفیسر لیسا وائبروٹز، جو امریکین ایسوسی آف یونیورسٹی پروفیسرز کی جنرل کونسل کے طور پر خدمات سرانجام دے رہی ہیں، کہتی ہیں کہ ہم کیمپس میں جبر کی بحالی کو دیکھ رہے ہیں جسے ہم نے 1960 کے عشرے کے آخر سے نہیں دیکھا تھا۔
یونیورسٹیوں کا کہنا ہے کہ وہ اس حد تک آزادانہ تقریر کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں جب تک وہ تعلیم کے عمل میں مداخلت نہیں کرتی۔ ان کا مزید کہا ہے کہ وہ کیمپس کی حفاظت اور تحفظ کے لیے مظاہروں سے متعلق موجودہ قوانین کو اپ ڈیٹ کر رہے ہیں۔
7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر حماس کے دہشت گردانہ حملے کے بعد سے یونیورسٹی کے کیمپسوں میں کشیدگی عروج پر ہے۔ اس حملے میں 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے جو زیادہ تر عام شہری تھے جب کہ تقریباً 250 کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔
امریکہ میں بہت سے طلبہ مظاہرین اپنی سرگرمی جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہیں جسے غزہ میں بڑھتی ہوئی انسانی ہلاکتوں سے ہوا مل رہی ہے۔ غزہ کی وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق 7 اکتوبر کو شروع ہونے والی اس جنگ میں جمعرات تک 40 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے تھے۔
کولمبیا یونیورسٹی کے احتجاجی طلبہ کی طرف سے بات چیت کرنے والے ایک اہم مذاکرات کار محمود خلیل کا کہنا ہے کہ کولمبیا یونیورسٹی کے تقریباً 50 طلبہ کو گزشتہ موسم بہار کے مظاہروں سے تعلق کے سلسلے میں نظم و ضبط کے قوانین کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس بارے میں ثالثی کا عمل موسم گرما کے آغاز سے رکا ہوا ہے۔ انہوں نے اس تعطل پر کولمبیا کے منتظمین کو مورد الزام ٹہرایا ہے۔
کولمبیا یونیورسٹی کے اسکول آف انٹرنیشنل اینڈ پبلک افیئرز کے ایک گریجویٹ طالب علم خلیل کہتے ہیں کہ ’یونیورسٹی یہ ظاہر کرنا چاہتی ہے کہ وہ طلبہ کے ساتھ بات چیت کر رہی ہے۔ لیکن یہ تمام مصنوعی اقدامات ہیں، جن کا مقصد یونیورسٹی کے عطیہ دہندگان اور ان کے سیاسی گروپ کو یقین دلانا ہے‘۔
یونیورسٹی نے اس بارے میں تبصرہ کرنے کی درخواست کا جمعرات تک جواب نہیں دیا تھا۔
اپر مین ہیٹن میں واقع آئیوی لیگ اسکول کو اس سال کے شروع میں مظاہروں نے ہلا کر رکھ دیا تھا جس کا اختتام پولیس کی جانب سے فلسطین نواز مظاہرین کے زیر قبضہ عمارت پر دھاوا بولنے اور پکڑ دھکڑ سے ہوا تھا۔
اسی طرح کے مظاہروں نے ملک بھر میں یونیورسٹی کیمپسوں کو اپنی لپیٹ میں لیا تھا جن میں سے بہت سے مقامات پر پولیس سے جھڑپیں ہوئیں اور 3000 سے زیادہ طلبہ گرفتار ہوئے۔ پکڑ دھکڑ کے دوران گرفتار کیے جانے والے بہت سے طلبہ پر سے الزامات ختم کر دیے گئے ہیں۔ لیکن کچھ طالب علم ابھی تک یہ انتظار کر رہے ہیں کہ استغاثہ ان کے بارے میں کیا فیصلہ کرتا ہے۔
بہت سے طالب علموں کو اپنے تعلیمی کیریئر میں مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جن میں معطل کیا جانا، ڈگری اور ڈپلومے کا روکا جانا اور نظم و ضبط سے متعلق دیگر کارروائیاں شامل ہیں۔
کولمبیا یونیورسٹی کی صدر منوش شفیق یونیورسٹی کی ان قائدین میں شامل ہیں جنہیں کانگریس میں پوچھ گچھ کے لیے طلب کیا گیا تھا۔ انہیں ریپبلکنز کی طرف سے شدید نکتہ چینی کا سامنا کرنا پڑا جنہوں نے ان پر کیمپس میں یہود دشمنی کے خدشات سے نمٹنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہ کرنے کا الزام لگایا۔
شفیق نے 3 ستمبر کو کلاسیں شروع ہونے سے چند ہفتے پہلے، یونیورسٹی کمیونٹی کو ای میل کے ذریعے بھیجے گئے ایک خط میں اپنے استعفے کا اعلان کیا۔ یونیورسٹی نے پیر کے روز کیمپس کے اندر داخلے کو یونیورسٹی کے آئی ڈی کارڈ ز اور رجسٹرڈ مہمانوں تک محدود کر دیا ہے۔ یونیورسٹی کا کہنا ہے کہ ایک ایسے موقع پر جب نیا سمسٹر شروع ہونے والا ہے، وہ ممکنہ خلل اندازی کو روکنا چاہتی ہے۔
کولمبیا یونیورسٹی کی سابق سربراہ شفیق نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ اس دور میں کمیونٹی کے دوسرے لوگوں کی طرح، انہیں اور ان کے خاندان کو کافی نقصان اٹھانا پڑا۔ خط میں ان کا مزید کہنا تھا کہ موسم گرما میں مجھے غور و خوض کا موقع ملا اور میں نے یہ فیصلہ کیا کہ اس موقع پر میرا چلے جانا کولمبیا کو چیلنجز کا سامنا کرنے کے قابل بنائے گا۔
فلسطینوں کے حامی طلبہ نے کولمبیا یونیورسٹی کے کیمپس میں سب سے پہلے خیمہ بستی اس وقت قائم کی تھی جب کانگریس نے شفیق کو اپریل کے وسط میں پوچھ گچھ کے لیے طلب کیا تھا۔ انہوں نے یہود دشمنی کی مذمت کی، لیکن انہیں تعصب کا مظاہرہ کرنے والے طلبہ اور فیکلٹی کے ارکان سے نمٹنے کے طریقہ کار پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
یونیورسٹی کے طلبہ سے خیمے خالی کرانے کے لیے صرف اس لیے پولیس بھیجی گئی تاکہ طلبہ تعلیم کی طرف واپس آ سکیں اور ملک بھر کے کیمپسوں میں اسی طرح کے مظاہروں کی لہر کو متاثر کیا جا سکے۔ یہ وہ وقت تھا جب مظاہرین اسرائیل اور جنگ کی حمایت کرنے والی کمپنیوں سے مالیاتی رابطے ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
موسم بہار کی ہنگامہ خیزیوں کے بعد گرمیوں کا موسم زیادہ تر پرسکون رہا۔ تاہم جون میں ایک قدمت پسند نیوز میڈیا نے کچھ تصویریں شائع کیں جن کے بارے میں کہا گیا تھا یہ وہ ٹیکسٹ میسجز ہیں جن کا ’کیمپس میں یہودیوں کی زندگی، ماضی، حال اور مستقبل‘ کے عنوان سے ہونے والے ایک مباحثے کے شرکا نے آپس میں تبادلہ کیا تھا۔
شفیق نے 8 جولائی کو یونیورسٹی کمیونٹی کو لکھے گئے اپنے ایک خط میں کہا تھا کہ اہل کاروں کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا تھا۔ ان ٹیکسٹ میسجز میں غیر پیشہ ورانہ انداز میں قدیم یہود دشمن مواد کو پریشان کن انداز میں چھیڑس گیا تھا۔
آئیوی لیگ تعلیمی ادارے کونسے ہیں؟
حالیہ مہینوں میں آئیوی لیگ کے کئی ممتاز قائدین نے اپنے عہدے چھوڑ دیے ہیں جس کی زیادہ تر وجہ ان کے کیمپسوں میں ہونے والے پرتشدد مظاہروں سے نمٹنے میں ان کا ردعمل تھا۔
آئیوی لیگ شمال مشرقی امریکہ کی آٹھ معروف یونیورسٹیاں ہیں، جن کی وجہ شہرت اعلیٰ ترین تعلیمی معیار، طلبہ کی تعلیم اور کھیلوں میں اعلیٰ کارکردگی، ان یونیورسٹیوں میں نوبیل انعام یافتہ اساتذہ کا ہونا اور فارغ التحصیل طلبہ کا امریکہ کی صدارت سمیت اعلیٰ ترین عہدوں پر پہنچنا ہے۔
یونیورسٹی آف پنسلوینیا کی صدر لز میگل نے، جنہیں اپنا عہدہ سنبھالے ہوئے دو سال سے بھی کم عرصہ ہوا تھا، دسمبر میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ جس کی وجہ عطیہ دہندگان کی جانب سے آنے والا دباؤ اور کانگریس کی سماعت کے دوران تنقید کا سامنا تھا جہاں وہ بار بار پوچھے جانے والے اس سوال کا جواب دینے سے قاصر رہیں کہ یونیورسٹی کی پالیسی کے خلاف کیمپس میں یہودیوں کی نسل کشی سے متعلق اپیل کیسے سامنے آئی۔
جب کہ جنوری میں ہاروڈ یونیورسٹی کے صدر کلاڈین گے نے سرقہ کے الزامات اور کانگریس کی سماعت میں اسی نوعیت کی تنقید کے باعث اپنا عہدہ چھوڑ دیا تھا۔
(اس رہورٹ کے لیے معلومات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئیں ہیں)