|
امریکی ریاست پینسلوینیا کی ایک کاؤنٹی ایسی ہے جس نے 1920 کے بعد سے جس صدارتی امیدوار کے حق میں ووٹ دیا وہ وائٹ ہاؤس میں پہنچا ماسوائے تین صدور کے۔
سن 1968 میں انہوں نے ری پبلکن رچرڈ نکسن پر ڈیمو کریٹ ہبرٹ ہمفری کو ترجیح دی۔ سن 2000 میں انہوں نے الگور کو ووٹ دیے۔ لیکن صدر جارج ڈبلیو بش بنے اور پھر چار سال کے بعد اس کاؤنٹی نے اپنے عہدے پر موجود صدر بش کے مقابلے میں ڈیمو کریٹ جان کیری کا انتخاب کیا لیکن وہ ناکام رہے۔
یہی وجہ ہے کہ یہ کاؤنٹی ان دنوں ڈیموکریٹ پارٹی کی نامزد نائب صدر کاملا ہیرس اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اس سال کی صدارتی مہمات کا مرکز بنی ہوئی ہے۔
اس کاؤنٹی کا نام نارتھپمٹن ہے۔ اسے ایک تاریخی حیثیت حاصل ہے۔ اس کا قیام 1752 میں عمل میں آیا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب پینسلوینیا، نوآبادیاتی ریاست تھی۔
اس کاؤنٹی کا صدر مقام ایسٹن ان تین مقامات سے ایک تھا جہاں پہلی بار اعلان آزادی پڑھ کر سنایا گیا تھا۔ 19 ویں صدی کے دوران اور 20 صدی کے آغاز میں یہ شہر تجارت اور نقل و حمل کا ایک اہم مرکز تھا۔
کاؤنٹی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہ اسٹیل کی پیداوار کا مرکز رہی ہے۔ ایسٹن سے تقریباً 10 میل کے فاصلے پر واقع بیت لحم اسٹیل کی پیداوار میں شہرت رکھتا تھا۔ 21 ویں صدی کے آغاز پر یہ کمپنی دیوالیہ ہو گئی اور اس کے اثاثے فروخت ہو گئے جس کی یادیں اب بھی لوگوں کے دلوں میں باقی ہیں۔
لیڈل گروپ کے ایک ری پبلکن تجزیہ کار سیموئیل چن کہتے ہیں کہ ووٹ دیتے وقت یہاں کے لوگ ایسے امیدوار کے بارے میں سوچتے ہیں جو ان کی ملازمتیں اور روزگار واپس لا سکے۔
ایلن ٹاؤن میں قائم موہلن برگ کالج میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر کرسٹوفر بارک کے مطابق نارتھمپٹن کاؤنٹی کے پاس صدارتی پیش گوئی کی ناقابل یقین طاقت ہے۔ اس میں یہ جاننے کی صلاحیت ہے کہ ریاستی اور قومی سطح پر کیا ہوتا ہے۔
اس کاؤنٹی میں زرعی پالیسیوں پر فکر مند کسان بھی آباد ہیں اور یہاں وہ علاقے بھی موجود ہیں جن کی توجہ سماجی مسائل، تعلیم اور ٹیکسوں پر مرکوز ہے۔ کاؤنٹی کی آبادی کا تناسب تبدیل ہو رہا ہے اور نیویارک اور فلاڈیلفیا سے لوگ سستی رہائش اور بہتر رہن سہن کی تلاش میں نارتھمپٹن میں آ رہے ہیں۔ کاؤنٹی کے کئی شہروں میں ہسپانوی آبادی بڑھ رہی ہے۔
بارک نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ہاں سفید فام محنت کش طبقے کے بڑے بڑے گروپ ہیں جنہوں نے ٹرمپ کی مقبولیت کے عروج کے دور میں سیاست میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہاں سیاست میں مسابقت بہت زیادہ ہے۔ یہ پینسلوینیا کی ان چند کاؤنٹیوں میں سے ایک ہے جو براک اوباما سے ڈونلڈ ٹرمپ اور پھر جو بائیڈن کے حق میں گئی ہیں۔
سیموئیل چن کہتے ہیں کہ اس کاؤنٹی کی اصل طاقت اس کا تنوع ہے۔ یہاں سیاسی طور پر منقسم افراد میں دیگر مقامات کے مقابلے میں زیادہ روا داری اور اعتدال پسندی ہے۔
نارتھمپٹن کاؤنٹی کے رجسٹرڈ ووٹروں میں ڈیمو کریٹس کو قدرے برتری حاصل ہے۔ لیکن چن کہتے ہیں کہ ڈیمو کریٹس اور ری پبلکنز کے کٹر حامیوں کی تعداد تقریباً برابر ہے۔
یہی وجہ ہے کہ نارتھمپٹن کاؤنٹی کو ’یو ایس اے سوئنگ کاؤنٹی‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہاں اب بھی ایسے ووٹر معقول تعداد میں ہیں جن کا جھکاؤ کبھی ایک پارٹی کی جانب ہو جاتا ہے تو کبھی وہ دوسری پارٹی کے پلڑے میں چلے جاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو شخصیات کے بجائے مسائل کو اہمیت دیتے ہیں اور مسائل کی بنیادپر اپنے ووٹ کا فیصلہ کرتے ہیں۔
بیت لحم کی مرکزی شاہراہ پر خواتین کے حقوق اور ماحولیاتی پالیسیوں کے بارے میں فکر مند ایک ماں ریچل لوئیل نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صدر ہونا ایک طرح کی ملازمت ہے اور ہم اس بارے میں بہت غور و فکر کرتے ہیں کہ آیا صحیح ملازم چنا جا رہا ہے۔
موہلن برگ کالج کے انسٹی ٹیوٹ آف پبلک اوپینیئن کے ڈائریکٹر بارک کا کہنا ہے کہ کاؤنٹی کے ووٹر صدر کے انتخاب میں اپنے کردار کو سنجیدگی سے لیتے ہیں۔
صدر بننے کے لیے 270 الیکٹورل ووٹ درکار ہوتے ہیں۔ ان میں سے 19 الیکٹورل ووٹ پینسلوینیا کے پاس ہیں جو اسے صدارتی انتخابات میں ایک اہم ریاست بناتی ہے۔
جمعرات کو جاری ہونے والے رائے عامہ کے دو جائزوں سے ظاہر ہوا ہے کہ ہیرس کو ریاست میں ٹرمپ پر برتری حاصل ہے۔
فورم